کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 261
اس آیت نے بعثت کے دن سے قبل رجعت کے ہر دعوے کو باطل کردیا ہے۔ وہ آیات جو عقیدہ رجعت کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
﴿کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (البقرہ:۲۸)
’’ (کافرو!) تم اللہ تعالیٰ سے کیونکر منکر ہو سکتے ہیں جس حال میں کہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں جان بخشی، پھر وہ تمہیں مارے گا، پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’یعنی تم پیدا ہونے سے پہلے معدوم تھے، پھر تمہیں زندہ کیا ؛ یعنی تمہیں پیدا کیا ؛ پھر جب تمہاری زندگیوں کی مدت ختم ہوجائے گی تووہ تمہیں موت دے گا، پھر وہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا۔ ‘‘[1]
سو یہ آیت قیامت سے پہلے لوٹ کر آنے کے دعویٰ (رجعت) کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ آیت میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو زندگیاں دی ہیں، ایک پہلی بار اس کی پیدائش کے وقت ؛ اور دوسری بار قیامت والے دن اٹھائے جانے کے وقت۔ اگر رجعت ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ تیسری بار بھی زندگی دینا ہو۔ مگر یہ بات آیت میں وارد نہیں ہوئی۔ تو آیت اس عقیدہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
اسی طرح (ایک اور مقام پر) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَہُوَ الَّذِیْ أَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اِنَّ الْإِنسَانَ لَکَفُوْرٌ﴾ (الحج:۶۶)
’’ اور وہی تو ہے جس نے تمہیں حیات بخشی، پھر تمہیں مارتا ہے، پھر تمہیں زندہ بھی کرے گا اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ مشرکین سے متعلق حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿قَالُوْا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ ﴾ (غافر: ۱۱)
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہم کو دو دفعہ بے جان کیا اور دو بار زندہ کیا۔‘‘
اس آیت سے بھی رافضی رجعت پر استدلال کرتے ہیں، جیساکہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں، اور وہ کہتے ہیں کہ ایک زندگی رجعت کے وقت اور دوسری قیامت کے دن۔
اس آیت میں ان کے اس مسئلہ کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ معاملہ اس کا الٹ ہے۔ یہ آیت ان پر ہی حجت ہے۔
[1] مختصر التحفۃ الاثني عشریۃ ص ۲۰۱
[2] تفسیر ابن کثیر ۳/ ۲۵۶ ؛ فتح القدیر للشوکاني ۳/ ۴۹۹۔