کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 260
چوتھی بحث : …یہودی رافضی عقیدہ ٔرجعت کا ابطال
عقیدۂ رجعت کے باطل ہونے پر کتاب اللہ، سنت، اجماع، اور عقل سب کے سب دلالت کرتے ہیں۔ [ذیل میں ہر ایک سے رد کیا جائے گا]۔
کتاب اللہ سے :
سو بہت ساری آیات قرآن کریم میں ایسی وارد ہوئی ہیں جو یوم حساب سے قبل مردوں کے اس دنیا میں لوٹ کر آنے کو محال بتاتی ہیں ؛ ان آیات میں سے :
اللہ تعالیٰ کافروں کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿حَتَّی إِذَا جَائَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ o لَعَلِّیْ أَعْمَلُ صَالِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَائِلُہَا وَمِن وَرَائِہِم بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ﴾ (المؤمنون:۹۹۔۱۰۰)
’’(یہ لوگ اسی غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں ) واپس بھیج دے تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہو گا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہو گا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ)اٹھائے جائیں گے (رہیں گے)۔‘‘
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رافضیوں کے عقیدہ ٔرجعت پر رد کرتے ہوئے اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’ کسی عاقل پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس آیت سے تعلق اور تمسک اس فرمان میں ہے :
﴿وَمِنْ وَّرَائِہِمْ بَرْزَخٌ إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o ﴾
سو شیعہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ رجعت کا کہیں، یہ محال ہے، خواہ نیک عمل کے لیے ہو، اور نہ ہی قصاص اورحد و تعزیر کے لیے ؛ اس لیے کہ اس آیت کے آخر میں رجعت مطلق طور پر ممنوع ٹھہرائی گئی ہے۔ ‘‘[1]
اس آیت نے دنیا میں لوٹ کر آنے کی تمام تر امیدیں توڑ کر رکھ دی ہیں، بھلے یہ لوٹ کر آنا نیک اعمال کے لیے ہو، یا اس کے کوئی اور اہداف اور مقاصد ہوں جیسے یہودی اور رافضی کہتے ہیں۔
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تاکید سے وجود ِ برزخ سے لوٹ کر آنے کو مستحیل (محال )قرارد یا ہے۔ کسی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس سے تجاوز کرسکے۔ چونکہ یہ برزخ موت اور بعثت کے درمیان ایک دیوار ہے۔ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک رکاوٹ ہے، جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے۔[2]
[1] فجر الإسلام ص : ۲۷۰۔
[2] الصلۃ بین التصوف والتشیع ص:۱۱۲-۱۱۳۔
[3] الشیعۃ والسنۃ ص ۲۷۔
[4] الفَرق بین الفِرق : للبغدادي ص ۲۳۵۔