کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 259
جائیں ) گے۔ یہ نظریہ پہلے زمانے میں عیسائیوں میں بھی پایا گیا ہے۔‘‘[1]
جب کہ معاصر شیعہ میں سے ڈاکٹر کامل مصطفی شیبی کا خیال ہے کہ : ’’ رجعت کا نظریہ ایک شخصی نظریہ تھا، جو کہ پروان چڑھتے ہوئے مکمل طور پر جماعتی نظریہ بن گیا۔ ‘‘ پھر وہ کہتا ہے :
’’ اور یقینا اس نظریہ کا اسرائیلی نظریہ سے تعلق ہے۔ جس کا محور بطن صحراء میں حمیری حکومت کا قائم ہونا ہے۔ پھر یہ نظریہ اثنا عشری شیعہ کی فطرت میں داخل ہوگیا۔مجلسی نے اسے اپنے اعتقادات کے ضمن میں شمارکیا۔ (وہ کہتا ہے ):بے شک اللہ تعالیٰ قائم علیہ السلام کے زمانے میں یا اس سے پہلے مومنین کی ایک جماعت کواکٹھا کرے گا، تاکہ وہ ان کی آنکھیں ان کے ائمہ حکومت کے دیدار سے ٹھنڈی کرے۔اور کافروں اور مخالفین کی ایک جماعت کو اکٹھا کرے گا، تاکہ وہ دنیا میں ہی جلدی انتقام لے لے۔ ‘‘[2]
حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ بے شک وہ یہودی افکار جو کہ ابن سبا نے ان مسلمانوں میں پھیلائے، جو اس سے دھوکا کھاگئے تھے؛ ان میں سے ایک رجعت اور عدم ِ موت کا؛ اور زمین کی بادشاہی کا؛ عقیدہ ہے۔ اور ائمہ کی بعض ایسی باتوں پر قدرت ہونے کا عقیدہ جس کی طاقت مخلوقات میں سے کوئی بھی نہیں رکھتا۔ ‘‘[3]
(اس مسئلہ میں ) قدیم اور معاصر اہل سنت اور شیعہ علماء اور مستشرقین کے چند اقوال ہیں ؛ جنہوں نے رافضیوں کے ہاں عقیدہ رجعت کے بارے میں لکھا ہے ؛ اور لمبی بحث و تدقیق اور تحقیق کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ :اس عقیدہ کامصدر خالص یہودی ہے۔جو عبد اللہ بن سبا کے واسطہ سے رافضیوں میں منتقل ہوا ہے ؛جس نے عام مسلمانوں میں یہودی عقائد و افکار پھیلائے۔ اس کا ہدف لوگوں کو دین سے دور کرنا تھا۔یہ عقائد رافضی نفوس میں ایک نرم وہری بھری چراگاہ ثابت ہوئی ؛ جن کے بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ :یہ لوگ اہلِ اہواء اور مبتدعین میں سے کفر میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں۔‘‘[4]
اتنا بیان کرنے سے ان لوگوں کے لیے حق باطل سے واضح ہوچکا، جو حق کے طلب گار ہیں کہ یہ عقیدہ اصل میں یہودی عقیدہ ہے، اور اسلام اس عقیدہ سے بری ہے ؛ بھلے رافضی اس عقیدہ کے اسلام کے طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے رہیں۔
بلکہ قرآن و سنت کے دلائل کھل کراس عقیدہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ آنے والی بحث میں بھی عنقریب بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
[1] الملل والنحل ۱/ ۱۷۴۔
[2] البرہان فی معرفۃ عقائد أہل الأدیان ص : ۵۰؛ بواسطۃ سلیمان العودۃ : عبد اللّٰه بن سبا ص : ۲۰۸۔
[3] المواعظ و الاعتبار للمقریزي ۲/ ۳۵۶
[4] العقیدۃ و الشریعۃ في الإسلام ص :۱۹۲
[5] الخوارج والشیعۃ ص: ۱۷۰-۱۷۱۔