کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 258
’’عبد اللہ بن سبا نے اس مقالہ کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کیا ؛ اور ایک گروہ اس عقیدہ پر جمع ہوگیا ؛ یہی سب سے پہلا فرقہ ہے جس نے :’’ توقف، غیبت اور رجعت کے عقیدہ کی بنیادیں ڈالیں۔‘‘[1]
علامہ سکسکی رحمہ اللہ نے ’’ البرہان‘‘ میں لکھا ہے :
’’ ابن سبا اور اس کے فرقہ کے لوگ موت کے بعد دنیا میں رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے۔یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے یہ عقیدہ اختیار کیا۔ ‘‘[2]
علامہ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’بے شک عبد اللہ بن سبا کاظہور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا، اور اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس دنیا میں لوٹ کر آنے کا قول گھڑا، اور ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹ کر آنے کا قول بھی اسی نے ہی گھڑا۔ ‘‘[3]
اور بہت سارے محققین نے اس بات کی تصریح اور وضاحت کی ہے کہ رافضیوں کے ہاں رجعت کا عقیدہ یہودیوں سے لیا گیا ہے۔ مستشرق محقق گولڈ ٹھیسر کہتا ہے :
’’رجعت کا نظریہ بذات ِ خود شیعہ کا ایجاد کردہ نہیں ہے، اور نہ ہی ان عقائد میں سے ہے، جو شیعہ کے ساتھ خاص ہیں۔ یہ بات بہت ممکن ہے کہ یہ عقیدہ اسلام میں یہودی اور عیسائی اثرات کا نتیجہ ہو۔‘‘[4]
ایک اور مستشرق فل ہاوزن جب ابن سبا کے یہودی ہونے کے متعلق بیان کرتا ہے توان عقائد کے درمیان جن کی دعوت ابن سبا نے پیش کی؛ اور یہودی عقائد میں موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’ یہی اس قول کی اصل ہے کہ ’’ فرقۂ سبائیہ کی بنیاد یہودی نے رکھی ہے۔ ‘‘ اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب جو کہ عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، بے شک وہی اس کا بانی ہے ؛ یقینا اس انسان کی بنیاد یہودی تھی، یہ ایرانی المرجع ہونے سے زیادہ قریب تر ہے۔‘‘[5]
اور احمد امین کہتا ہے :
’’ رجعت کا یہ نظریہ ابن سبا نے یہودیت سے لیا ہے۔ ان (یہودیوں ) کے ہاں اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام آسمان پر چڑھ گئے تھے۔ وہ واپس آئیں گے، اور دین اور قانون بھی لوٹ آئیں (بحال ہو
[1] فرق الشیعۃ ص : ۲۳۔
[2] مقالات الإسلامیین ص : ۸۶۔
[3] التنبیہ والرد علی أہل الأہواء و البدع ص ۱۸۔