کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 257
سو سب سے پہلے ابن سبا نے جس چیز کی طرف دعوت دی ؛ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹ کر آنے کا عقیدہ تھا۔ پھرجب اس نے دیکھا کہ لوگوں میں یہ عقیدہ رواج پکڑ رہا ہے تو اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لوٹ کر آنے کاکہنا شروع کردیا۔ نو بختی (تیسری صدی کا بڑا شیعہ عالم) کہتا ہے : ’’ جب ابن سبا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر پہنچی تو وہ اس وقت مدائن میں تھا۔ اس نے موت کی خبر پہنچانے والے سے کہا : اگر تم علی رضی اللہ عنہ کا دماغ بھی میرے پاس ستر برتنوں میں رکھ کر لے آؤ، اور ان کے قتل ہونے پر ستر عادل گواہ لاؤ، تب بھی میں یہی کہوں گا آپ نہیں مرے ؛ اور نہ ہی قتل ہوئے ہیں۔ اور اس وقت تک نہیں مریں گے یہاں تک کہ پوری زمین کے بادشاہ نہ بن جائیں۔‘‘[1] ابو الحسن علی اشعری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’سبائی /عبد اللہ بن سبا کے ساتھی اس بات کا گمان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے، وہ قیامت سے پہلے دنیا میں لوٹ کر آئیں گے، اور زمین کوایسے ہی عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے و ہ ظلم و زیادتی سے بھری ہوگی۔ ‘‘ اور کہتے ہیں کہ (عبد اللہ بن سبا ہی) وہی تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ’’ تو ہی معبود ہے تو ہی معبود ہے۔ ‘‘ اور فرمایا: سبائی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں،اور کہتے ہیں : ’’مردے دنیا میں لوٹ کر آئیں گے۔‘‘[2] (شیخ) مطلی رحمۃ اللہ علیہ سبائیوں کے متعلق کہتے ہیں : ’’یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہیں مرے؛ وہ زندہ ہیں، اورنہ ہی مریں گے۔ اور کہا جاتا ہے جب انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو کہنے لگے : ’’اگر تم علی رضی اللہ عنہ کا دماغ بھی میرے پاس ستر لوٹوں میں رکھ کر لے آؤ، تب بھی ہم ان کی موت کی تصدیق نہیں کریں گے۔جب یہ بات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو فرمایا: ’’ پھر ہم ان کے مال کے وارث کیسے بنے، اور ان کی عورتوں سے شادیاں کیسے ہوگئیں ؟‘‘[3] علامہ شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موت کی خبرلانے والے کے لیے عبد اللہ بن سبا کا مقالہ ذکر کرنے کے بعد کہا ہے :
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۴۰۔