کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 254
مجلسی نے بحار الانوار میں سعد القمی سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے : ابو الفضل الدکین نے کہا ہے : مجھ سے محمد بن راشد نے بیان کیا ؛ وہ اپنے باپ سے روایت کرتاہے، وہ اپنے دادا سے ؛ وہ کہتا ہے : میں نے جعفربن محمد علیہما السلام سے نشانی پوچھی۔ توانہوں نے کہا :
’’جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں آپ کو بتاؤں گا؛ ان شاء اللہ!! تو میں نے کہا : میرا بھائی مر گیا ہے؛ آپ اس کو حکم دیں کہ وہ میرے پاس آئے۔ کہا : اس کا نام کیا تھا ؟ میں نے کہا : اس کا نام احمد تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے احمد، اللہ کے حکم سے کھڑے ہوجاؤ اور جعفر بن محمد کے حکم سے۔‘‘ وہ کھڑا ہوگیا ؛ اوروہ کہہ رہا تھا : اللہ کی قسم ! میں اس کے پاس آرہا۔ ‘‘[1]
ائمہ کا حیوانات کو زندہ کرنا:
مجلسی نے ’’بحار الأنوار‘‘ میں مفضل بن عمر سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے :
’’ میں ابو عبد اللہ جعفر بن محمد علیہما السلام کے ساتھ مکہ میں یا عرفات میں چل رہا تھا۔ ہمار، گزر ایک عورت پر ہوا ؛ اس کے سامنے ایک گائے مری ہوئی پڑی تھی۔ وہ ایک بچے کے ساتھ رو رہی تھی۔ آپ علیہ السلام نے کہا : ’’ تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ اس (عورت) نے کہا: ’’ میرا اور میرے بچوں کاگزر بسر اس گائے پر ہوتا تھا اور یہ مر گئی ہے، اب مجھے یہی پریشانی لاحق ہے (کہ گزر بسر کیسے ہوگی؟) آپ نے فرمایا: کیا تم چاہتی ہو کہ اللہ تمہارے لیے اس گائے کو زندہ کردے ؟ وہ کہنے لگی : کیا تم میری اس مصیبت میں میرا ٹھٹھہ اڑاتے ہو؟ فرمایا : ہر گز نہیں ؛ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ؛ پھر آپ نے ایک دعا کی ؛ پھر اسے اپنی ایڑی سے مارا اور چیخ کر اسے آواز دی۔وہ گائے جلدی جلدی صحیح سلامت کھڑی ہوگئی۔ وہ عورت کہنے لگی : رب کعبہ کی قسم ! یہ تو عیسیٰ بن مریم ہے۔ صادق علیہ السلام لوگوں میں داخل ہوگئے ؛ اور وہ عورت انہیں نہ پہچان سکی۔‘‘[2]
یونس بن ظبیان سے مروی ہے، وہ کہتا ہے میں لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ صادق علیہ السلام کے پاس تھا ؛ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ فرمانا :
﴿ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ﴾ (البقرہ:۲۶۰)
’’ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگوا لو (اور ٹکڑے ٹکرے کروا دو)۔ ‘‘
’’کیا یہ چار مختلف اجناس کے پرندے تھے، یا ایک ہی جنس کے۔ تو فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ اس جیسا دیکھو؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں، ضرور چاہتے ہیں۔ تو آپ نے کہا : ’’ اے طاؤوس (مور ) ! تو مور فوراً اڑ کر آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ تو آپ نے پھر کہا : ’’ اے کوّے! تو کوّا فوراً اڑ کر آپ کے سامنے حاضر ہو
[1] بصائر الدرجات ص :۳۰۵۔
[2] ’’ رمیکا‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔
[3] فلاں آدمی سے مراد جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لیتے ہیں۔ علیہم من اللّٰه ما یستحقون۔
[4] بصائر الدرجات ص :۲۹۳۔
[5] بصائر الدرجات ص :۲۹۴۔