کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 253
وہ (راوی) کہتا ہے : ’’ میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوا ؛ اور پوچھا : تو انہوں نے کہا : اے ابو جعفر تم نے نہیں پہچانا ؟ یہ معاویہ ہے۔ ‘‘[1] رابعاً: بعض مردوں کو زندہ کرنے کی ائمہ کی قدرت : رافضی یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان کے ائمہ اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ مردوں میں سے جس کو چاہیں، دوبارہ زندگی دے دیں ؛ خواہ وہ (مردہ) انسان ہو یا حیوان ہو۔ کتاب بصائر الدرجات کے باب : ’’ بے شک ائمہ علیہم السلام نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا ‘‘ کے عنوان کے تحت کئی روایات نقل کی ہیں جو اس عقیدہ کی تائید کرتی ہیں۔ ان میں سے چند روایات میں یہاں پیش کرتا ہوں جو ابو عبد اللہ علیہ السلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں، انہوں نے کہا ہے : ’’ بے شک امیر المومنین حضرت علی [ رضی اللہ عنہ ] علیہ السلام کی خالہ بنی مخزوم میں تھیں۔ ان میں سے ایک نوجوان (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے ماموں جی ! میرا بھائی اور میرے باپ کا بیٹا مر گیاہے ؛ اور مجھے اس کا بہت زیادہ غم ہوا ہے۔ فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ اسے دیکھو؟ کہا : ہاں ! فرمایا : ’’ مجھے اس کی قبر دیکھاؤ۔ آپ اس نوجوان کے ساتھ نکلے ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہونے والی چادر ’’بردہ ‘‘ آپ پر تھی ؛ جب آپ قبر پر پہنچے تو آپ کے ہونٹ گول ہوئے؛ اور قبر پر اپنی ایڑی ماری۔ وہ مردہ اپنی قبر سے یہ کہتے ہوئے نکلا: ’’رمیکا۔‘‘[2] آپ نے فرمایا: کیا جب تم مرے تو عربی نوجوان نہیں تھے؟ تواس نے کہا : کیوں نہیں، بس جب ہم مرے تو فلاں آدمی[3]کے طریقہ پر مرے تھے، اس لیے ہماری زبانیں مڑ گئی ہیں۔‘‘[4] داؤد بن کثیر راقی سے روایت ہے وہ کہتا ہے : ’’ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک نے حج کیا۔ وہ ابو عبد اللہ علیہ السلام کے پاس گیا، اور کہا : ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! بے شک میرے گھر والی مر گئی ہے۔ اور میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ ابوعبد اللہ علیہ السلام نے کہا : کیا تم اس سے محبت کرتے تھے ؟ کہا : ہاں ؛ میں آپ پر قربان جاؤں۔ فرمایا : ’’ اپنے گھر واپس جاؤ ؛ وہ بھی اپنے گھر واپس آئے گی اور وہ کوئی چیز کھا رہی ہوگی۔ کہا : جب میں اپنے حج سے واپس آیا، اور اپنے گھر میں داخل ہوا ؛ میں نے دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی تھی اور کچھ کھا رہی تھی۔ ‘‘[5]
[1] بصائر الدرجات ص :۳۰۶-۳۰۷۔ ایقاظ الہجعۃ ص: ۱۹۳۔ [2] مکہ مکرمہ سے پچیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ معجم البلدان ‘ یاقوت الحموي ۳/۴۵۳۔