کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 252
ثالثاً: عذا ب کی غرض سے بعض صحابہ کی رجعت: بعض صحابہ کی رجعت ہوگی ؛ جس کا ہدف انہیں عذاب دینا ہوگا ؛ رافضی گمان کے مطابق یہ خروج مہدی سے پہلے ہوگا۔ رافضہ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے دشمنی کی کوئی حد نہیں ہے ؛اور خاص کر حضرات ِ شیخین ِ جلیلین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے۔ (ان دونوں ) کے بارے میں ان کاخیال ہے کہ انہیں ہر موسم ِ حج میں ان کی قبروں سے نکالا جائے گا تاکہ انہیں جمرات کے پاس لے جا کر ائمہ رجم کریں گے۔ صفار نے بصائر الدرجات میں روایت نقل کی ہے، (وہ کہتا ہے)علی بن عیسیٰ سے روایت ہے، وہ کہتا ہے : اسے اس کے دادا نے خبر دی کہ: ’’ وہ منیٰ میں جمرات کے پاس ابو جعفر محمد بن علی کے پاس تھا ؛ وہ رمی ِ جمرات کرر ہے تھے۔جب ابوجعفر علیہ السلام نے رمی جمرات کر لی، تو کہا اسے پورا کرو۔ پھر اس کے ہاتھ میں اس کے بعد پانچ کنکریاں بچی تھیں، ان میں سے دو کی ایک کونے میں رمی کی، اور تین کی ایک کونے میں۔ میرے والد نے کہا : میں آپ پر قربان جاؤں ؛ میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے ایسا کام کیا جو کسی اور نے نہیں کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے جمرات کی رمی کی، پھرآپ نے پانچ کنکریاں ماریں ؛ تین کنکریاں ایک کونے میں ماریں،اور دو کنکریاں ایک کونے میں۔فرمایا: ہاں ! جب حج کا موسم آتا ہے تو دو نوں (ابو بکر و عمر) فاسق غاصبوں کو نکالا جاتا ہے ؛ اور ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ یہاں اور وہاں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ انہیں عادل امام کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔ تو میں نے پہلے کو دو کنکریاں ماریں ؛ اور دوسرے کو تین ؛ اس لیے کہ دوسرا پہلے سے زیادہ خبیث ہے۔ ‘‘[1] رہے جناب ِ حضرت ِ معاویہ رضی اللہ عنہ، تو ان کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ انہیں ان کی قبر سے نکالا گیا، ان کی گردن میں ایک زنجیر تھی ؛ انہوں نے ابو جعفر سے سوال کیا کہ انہیں کچھ پینے کو دیا جائے۔ صفار نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : ’’میں مکہ کی راہ میں اپنے باپ کے ساتھ چل رہا تھا، ہم دو اونٹنیوں پر سوار تھے۔ جب ہم وادی ضجنان[2]پہنچے تو ایک آدمی نکلا، اس کی گردن میں زنجیر تھی جسے وہ کھینچ رہا تھا ؛ اور اس نے کہا: ’’اے ابو جعفر مجھے کچھ پلاؤ، اللہ تمہیں پلائے۔‘‘ اس کے پیچھے ایک دوسرا آدمی آیا۔ اس نے زنجیر کھینچ لی، اور کہا : اے ابنِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے کچھ بھی نہ پلائیے ؛ اور اللہ اسے نہ پلائے۔
[1] بصائر الدرجات ص :۲۹۵۔ بحار الأنوار ۲۷/ ۳۰۳۔ [2] بصائر الدرجات ص :۲۹۶۔ بحار الأنوار ۲۷/۳۰۴۔ [3] ایقاظ الہجعۃ ص: ۲۲۰۔