کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 251
نوح علیہما السلام کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر لوٹ کر آنے کی دلیل ہے۔ جب کہ دوسری دو روایتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے لوٹ کر آنے پر دلالت کرتی ہیں۔ ثانیاً: ائمہ کی رجعت : صفار نے سماعہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : ’’ میں ابو عبد اللہ علیہ السلام پر داخل ہوا، میرے دل میں کوئی بات تھی۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا: تمہیں کیا ہوگیا ہے، دل میں باتیں چھپاتے ہو، کیا تم چاہتے ہو کہ ابو جعفر کو دیکھو؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا : کھڑے ہوجاؤ اور گھر میں اند ر چلے جاؤ۔ جب میں گھر کے اندر داخل ہوگیا، تو دیکھا : ابو جعفر علیہ السلام وہاں تھے۔‘‘ اور کہا : ’’ حسن بن علی علیہ السلام کے شیعہ میں سے کچھ لوگ امیر المومنین علیہ السلام کے قتل کے بعد آئے تھے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا : ’’ کیا تم اگر امیر المومنین کو دیکھو گے تو پہچان لوگے ؟ کہنے لگے : ہاں۔ فرمایا : ’’ پردہ اٹھاؤ ؛ انہوں نے پردہ اٹھایا تو دیکھا امیر المومنین علیہ السلام تھے، جو بالکل ان کے لیے اوپرے (ان جانے ) نہیں تھے۔ تو امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’ جو ہم میں سے مرتا ہے، وہ مرجاتا ہے، مگر وہ مردہ نہیں ہوتا اور ہم میں سے جو باقی رہ گیا، وہ تم پر حجت باقی رہ گیا ہے۔ ‘‘[1] اور اسی کتاب میں سماعہ سے ہی دوسری روایت ہے ؛ وہ کہتا ہے : ’’ میں ابو الحسن علیہ السلام کے پاس تھا۔ بہت دیر ان کے پاس بیٹھا رہا تو انہوں نے کہا : ’’ کیا تم چاہتے ہو کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام کو دیکھو: اس نے کہا : ’’ اللہ کی قسم ! میری خواہش ہے۔ ‘‘ فرمایا : کھڑے ہوجاؤ، اور اس گھر میں داخل ہوجاؤ۔ ناگہاں میں نے دیکھا کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام و ہاں بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘[2] (اورکتاب) إیقاظ الہجعۃ میں ہے : ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ’’ میں اپنے والد کے ساتھ ان کے بعض اموال کی طرف نکلا، جب ہم صحراء میں چلنے لگے تو ہمارااستقبال ایک شخص نے کیا۔ میرے والد سواری سے اترے، اور اسے سلام کیا ؛ ہم نے سنا، وہ ان سے کہہ رہے تھے : ’’ میں آپ پر قربان جاؤ ں ؛ پھر بہت لمبی بات چیت کی۔ پھر میرے والد نے انہیں الوداع کہا ؛ وہ شیخ کھڑے ہو ے اور چل پڑے، ہم اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ہم سے غائب ہوگئے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا : ’’ یہ شیخ کون تھا ؟‘‘ فرمایا: ’’ یہ تمہارے دادا حسین علیہ السلام تھے۔‘‘[3]
[1] بحار الأنوار ۲۷/ ۳۰۴۔ [2] بصائر الدرجات ص :۲۹۴۔ بحار الأنوار ۲۷/ ۳۰۳۔ [3] بصائر الدرجات ص :۲۹۴۔