کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 250
لوٹ کر آنے پر دلالت کرتی ہیں۔
اس موضوع میں بہت ساری روایات ہیں۔ ان میں سے بعض انبیاء کے لوٹ کر آنے کی ہیں، اور بعض روایات ان کے ہاں ائمہ کے لوٹ کر آنے پر دلالت کرتی ہیں ؛ اور بعض روایات بعض صحابہ کے لوٹ کر آنے پر دلالت کرتی ہیں جس کا ہدف (رافضی بد گمانی کے مطابق) انہیں عذاب دینا ہے۔ اور بعض روایات ان کے ائمہ کی اس قدرت پر دلالت کرتی ہیں جن کی رو سے وہ بعض مردوں کو دوبارہ زندگی دے سکیں گے۔
اولاً: انبیاء کی رجعت :
مجلسی نے علی بن الحسن بن فضال سے روایت کیا ہے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے، اس نے علاء بن یحی مکفوف سے روایت کیا، اس نے عمر بن ابی زیاد سے اور اس نے عطیہ ابزاری سے روایت کیا ہے ؛ وہ کہتا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا ؛ آپ نے اچانک دیکھا کہ حضرت آدم علیہ السلام رکن یمانی کے برابر میں (کھڑے) ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا، جب حجر اسود کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت نوح علیہ السلام وہاں پر حجر اسود کے برابر میں ہیں ؛ آپ ایک دراز قامت انسان تھے ؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی سلام کیا۔ ‘‘[1]
بصائر الدرجات میں ہے:
’’حسین بن علی الوشا سے روایت ہے، وہ ابو الحسن الرضا سے روایت کرتے ہیں ؛ انہوں نے کہا :
’’ انہوں نے خراسان میں مجھ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہاں پر دیکھا، اور پھر میں آپ کی صحبت میں رہا۔ ‘‘[2]
اور اسی میں ابو عبد اللہ سے روایت ہے :
’’ بے شک امیر المومنین علیہ السلام کی ملاقات ابو بکر سے ہوئی ؛ اور ان پر حجت قائم کی۔ پھر ان سے کہا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے اور آپ کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کرنے والے ہوں ؟ انہوں نے کہا : مگر میں ان کے پاس کیسے جا سکتا ہوں ؟ انہوں نے ان (ابو بکر) کو ہاتھ سے پکڑا، اور لے کر مسجد ِ قباء میں داخل ہوگئے۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پر موجود تھے۔ انہوں نے ابو بکر کے خلاف فیصلہ دیا۔ ابوبکر وہاں سے گھبرائے ہوئے واپس لوٹے؛ اور عمر سے ملے اور انہیں (اس معاملہ کی) خبر دی۔ انہوں نے کہا : ’’ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تمہیں بنی ہاشم کی جادو گری کا پتہ نہیں ہے ؟‘‘[3]
یہ روایات انبیاء کرام علیہم السلام کی موت کے بعد لوٹ کر آنے پر دلالت کرتی ہیں۔ پہلی روایت میں حضرت آدم اور
[1] الأربعین ۴۰۰- ۴۰۱۔
[2] الرجعۃ للأحسائی ص : ۲۵۹۔
[3] الإیقاظ من الہجعۃ ص : ۳۴۴۔
[4] الإیقاظ من الہجعۃ ص : ۳۴۱۔
[5] اسی کتاب میں ایک فصل مہدی منتظر کے بارے میں گزر چکی ہے۔ جس میں تفصیلی روایات ہیں۔