کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 248
﴿قَالُوْا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ ﴾ (غافر: ۱۱)
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہم کو دو دفعہ موت دی اور دو بار زندہ کیا۔‘‘
قمی نے صادق سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا ہے :
’’ رجعت :جو دنیا کی دوزندگیوں میں سے ایک ہے؛ اور ایک قیامت میں ہوگی۔ اور دنیا کی دو موتوں میں سے ایک ؛ اور دوسری (موت) رجعت میں ہوگی۔ ‘‘[1]
مذکورہ آیات میں سے بعض وہ ہیں جن سے وہ رجعت کے وقوع پذیرہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات ہیں جن میں انہوں نے اپنے فاسد عقیدہ کی تائید و اثبات کے لیے تاویل کی ہے۔ جن کے بیان کرنے کے لیے یہ موقع نہیں ہے۔ جو کوئی مزید دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ ان کتابوں کا مراجعہ کرے :
۱۔ ’’ الإیقاظ الہجعۃ في اثبات الرجعۃ ‘‘ للحر العاملی۔
۲۔ الأربعین لمحمد باقر المجلسی۔
۳۔ عقائد الإمامیۃ : لإبراہیم الموسوی۔
عقیدہ ٔرجعت پر ان کے استدلالات میں سے وہ روایات بھی ہیں جو وہ لوگ اپنے ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں،اور جن سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اپنے مدلول کے اعتبار سے یہ روایات دو طرح کی ہیں :
پہلی قسم :…وہ روایات جومہدی کے خروج کے وقت بعض مردوں کے لوٹائے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔یہ رجعت (شیعوں کے گمان کے مطابق) ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو یاتو محض ایمان دار ہیں، یا پھر محض کفار۔ جیسا کہ ہم پہلے اس مسئلہ کو بیان کر چکے ہیں۔
کچھ ایسی روایات بھی ہیں جو بعض ائمہ اور ان کے شیعہ کی رجعت پر نص ہیں تاکہ وہ امام مہدی کی نصرت پر ثواب حاصل کرکے کامیاب ہوسکیں۔ اور ایسے ہی بعض ِ صحابہ کی رجعت بھی ثابت ہے، تاکہ (شیعہ گمان کے مطابق) وہ مہدی منتظر کے ہاتھوں اپنے حصہ کی سزا حاصل کرسکیں۔
ان روایات میں سے وہ بھی ہیں جنہیں باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’’ الاربعین‘‘میں نقل کیاہے۔ یہ منجملہ ان چالیس احادیث میں سے ہیں جن کی اس کتاب میں شرح کی گئی ہے، اور اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔
ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے، انہوں نے کہا : ’’ حسین علیہ السلام نے قتل ہوجانے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے کہا : ’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تجھے عراق کی سرزمین کی طرف لے جایا جائیگا، یہ وہ سر زمین ہے جس میں انبیاء اور انبیا کے اوصیاء ملتے رہے ہیں۔ اس سر زمین کانام ’’عمور تھا۔ ‘‘ اور بے شک تم شہید کردیے
[1] الإیقاظ من الہجعۃ ص ۷۳۔
[2] تفسیر القمي ۲/ ۱۷۰۔
[3] تفسیر القمي ۲/ ۱۷۰۔