کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 246
سے حجت قائم کی ہے۔ اور مخالفین نے اس وجہ سے اپنی بودی کتابوں میں برا بھلا کہا ہے۔ اور مومن ائمہ علیہم السلام کی عصمت سے اس معاملہ میں کیسے شک کرسکتا ہے جس کے بارے میں دو سو سے زیادہ صریح حدیثیں ہوں، جن کو میں نے ’’ الکتاب الکبیر ‘‘[1]میں نقل کیا ہے۔ جنہیں میں نے چالیس سے زیادہ چوٹی کے علماء سے نقل کیا ہے۔ جسے انہوں نے پچاس سے زیادہ مشہور کتابوں میں روایت کیا ہے۔ ‘‘[2]
محمد رضا مظفر ان معاصر (شیعہ) علماء میں سے جنہوں نے اس (عقیدۂ رجعت) پر اجماع کی صراحت کی ہے ؛ وہ کہتا ہے :
’’ہاں ! قرآن کریم عقیدہ رجعت کی حقیقت لے کر آیا ہے۔ اور اس کی احادیث بیت ِ عصمت سے وافر ملتی ہیں۔ اور امامیہ تمام کے تمام اسی عقیدہ پر ہیں، سوائے ان چند ایک کے جنہوں نے رجعت کے بارے میں وارد ہونے والی (نصوص) میں تاویل کی، اور وہ کہتے ہیں : ’’ اس کے معنی اس ملک کا واپس ملنا ہے، اور امرو نہی کا دوبارہ قائم ہونا ہے۔ ‘‘[3]
رہے وہ دلائل جن سے رافضہ عقیدۂ رجعت ثابت کرنے کے لیے استدلال کرتے ہیں ؛ ان کے گمان کے مطابق قرآن حکیم خود اس عقیدہ کے درست[اوربرحق] ہونے پر دلالت کرتا ہے، اس لیے انہوں نے کئی آیات سے استدلال کیا ہے۔ ان میں سے پہلی آیت، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّنْ یُّکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُوْنَ﴾ (النمل:۸۳)
’’اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی۔‘‘
قمی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا گیا ہے :
’’ صادق سے روایت ہے، ان سے اِس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال کیا گیا ؛ آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’ لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ کہا گیا : ’’ بے شک لوگ کہتے ہیں یہ آیت قیامت کے بارے میں ہے۔ ‘‘ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہر امت سے ایک گروہ کو جمع کرے گا اور باقی لوگو ں کو چھوڑ دے گا، بے شک یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے، رہی یہ آیت :
﴿وَّحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ أَحَدًا﴾ (الکہف:۴۷)
’’ اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کر لیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘[4]
حر عاملی نے ایقاظ میں عقیدہ ٔرجعت پر اس آیت سے استدلال کرنے کے بعد کہا ہے :
[1] الإیقاظ من الہجعۃ ص ۸۹۔
[2] الإیقاظ من الہجعۃ ؛ ص :۳۳-۳۴۔
[3] الإیقاظ من الہجعۃ ؛ ص :۳۴؛ ۴۳۔