کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 245
کے سارے اس پر ایمان رکھتے ہیں، سوائے چند ان لوگوں کے جو اس راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ ‘‘[1] اور ایسے ہی عقیدہ ٔرجعت پر امامیہ کا اجماع محمد بن حسن الحر العاملی نے اپنی کتاب ’’ ایقاظ الہجعۃ ‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔ وہ دلائل جن سے امامیہ اثنا عشریہ نے رجعت کا عقیدہ صحیح ہونے پر استدلال کیا ہے ؛ ان میں سے ایک دلیل بیان کرتے ہوئے کہتاہے: ’’اور چوتھی دلیل: تمام امامیہ شیعہ، اور اثنا عشری طبقات کا رجعت کا عقیدہ صحیح و درست ہونے پر اجماع ہے ؛ جس کا سابقہ اور آنے والے علماء میں کوئی بھی ایسا مخالف معلوم نہیں ہوا جس کا قول معتبر سمجھا جاتا ہو۔ ‘‘[2] پھر بعض ان رافضی علماء کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے (اس عقیدہ پر) اجماع کے ثابت ہونے کی صراحت کی ہے، اور کہا ہے : ’’ جلیل القدر شیخ امین الدین ابو علی فضل بن الحسن الطبرسی نے اپنی کتاب: ’’مجمع البیان لعلوم القرآن‘‘ میں اجماع نقل کیا ہے۔ اور جن لوگوں نے اجماع نقل کیا ہے، (ان میں ) شیخ حسن بن سلیمان بن خالد قمی نے رجعت کے بارے میں اپنے کتابچہ میں (اجماع نقل کیا ہے، اور کہا ہے) الفاظ یہ ہیں : ’’ رجعت ان عقائد میں سے ہے جن پر ہمارے علماء کا اجماع ہے، بلکہ تمام امامیہ کا اس پر اجماع ہے اور اس مسئلہ میں ان سے شیخ مفید اور شیخ مرتضیٰ کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی اجماع نقل کیا ہے۔ اور کتاب ’’ الصراط المستقیم‘‘ والے نے رجعت کے مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی ایسے ہی ہمارے لیے اجماع نقل کیا ہے۔‘‘[3] اور جن علماء رافضہ نے رجعت پر اجماع کی صراحت کی ہے، ان میں سے ایک ملا محمد باقر مجلسی ہے۔اس نے اپنی کتاب ’’الاربعین‘‘ میں رجعت اور اس کے بارے میں روایات کا ذکر کیا ہے،وہ کہتا ہے : ’’ اے حق و یقین کے طالب ! جان لے کہ میں یہ گمان نہیں کرسکتا کہ تم عقیدۂ رجعت کی اصل میں شک کرسکتے ہو، اس کے بعد کہ میں نے آپ کے لیے وہ معتبر اخبار (احادیث) روایت کردی ہیں، جو ہمارے علماء اخیار کی ثقہ کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ جن کی انتہاء ہمارے ائمہ اطہار پر ہوتی ہے ؛ ان پر بخشنے والے بادشاہ کے سلام ہوں ؛ اور اس کے ساتھ ہی اس (عقیدہ) پر ہر زمانے کے شیعہ کا اجماع رہا ہے۔ اور اس عقیدہ کی ان کے درمیان ایسے شہرت رہی ہے، جیسے سورج کی چڑھتے ہوئے دن میں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس عقیدہ کو اپنی کتابوں میں پرویا (تحریر کیا) ہے۔ اور تمام شہروں میں اپنے مخالفین پر اس
[1] عقائد الإمامیۃ ص ۱۱۸۔ [2] علم الیقین فی أصول الدین ۲/ ۸۲۷۔ [3] الإیقاظ من الہجعۃ ص ۳۳-۳۴۔