کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 244
گا، جس (صورت) پر وہ تھے ؛ پس ایک فریق کو عزت ملے گی اور ایک دوسرے فریق کو رسوائی ہوگی۔ اور اہل باطل سے حق داروں کوحق دلایا جائے گا ؛ اور مظلوموں کے لیے ظالم سے انتقام لیا جائے گا۔ اور یہ مہدی آلِ محمد علیہم السلام کے قیام (خروج) کے وقت ہوگا۔ اور اس دنیا میں صرف وہی لوگ لوٹیں گے جن کا ایمان میں اعلیٰ درجہ ہو، یا جو کوئی فساد کے انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ پھر اس کے بعد (دوبارہ) انہیں موت آجائے گی۔‘‘[1] یہ جو کچھ رافضہ کے قدیم اور معاصر علماء نے رجعت کے معنی میں بیان کیا ہے ؛ اس کا خلاصہ ذیل نکات کی صورت میں نکلتا ہے : ۱۔ رجعت کا معنی ہے : کچھ لوگوں کا قیامت سے پہلے دنیا کی زندگی میں لوٹایا جانا۔ ۲۔ یہ کہ رجعت صرف ان لوگوں کے لیے ہوگی جو یا تو اصلاح کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں، یا پھر فساد میں اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ۳۔ مفسدین میں سے رجعت صرف ان لوگوں کے لیے ہوگی جن کو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے عذاب دے کر ہلاک نہ کیا ہو۔ رہے وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے عذاب دے کر ہلاک کیا ہو، ان کے لیے کوئی رجعت نہیں ہے۔ رافضہ سارے کے سارے رجعت پر ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں، اور ان کے کئی مشہور علماء نے اس پر اجماع ذکر کیا ہے۔ صدوق اپنے اعتقادات (بیان کرتے ہوئے) کہتا ہے : ’’ ہمارے اعتقادات (یعنی امامیہ شیعہ کے)رجعت کے بارے میں بالکل حق ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿أَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ أَحْیَاہُمْ ﴾ (البقرہ : ۲۴۳) ’’ بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں ) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے تو اللہ نے اُن کو حکم دیا کہ مر جاؤ، پھر اُن کو زندہ بھی کر دیا۔‘‘[2] محمد بن حسن الحر العاملی نے صدوق کے کلام پر تعلیق لگاتے ہوئے کہا ہے : ’’ یقیناً کتاب کے شروع میں صراحت کی ہے کہ اس میں امامیہ کے اعتقاد (بیان کیے گئے) ہیں ؛ اس نے پہلے باب میں ذکر کیا ہے ؛ اور باقی کے متعلق حوالہ دیا ہے۔ یہ تمام شیعہ کے اجماع پر دلالت کرتا ہے۔ ‘‘[3] (شیعہ عالم) مفید نے اپنی کتاب ’’اوائل المقالات ‘‘ میں ’’رجعت پر ایمان ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے : ’’قرآن میں اس عقیدہ کے درست ہونے کے متعلق موجود ہے، اور اس کی احادیث ظاہر ہیں، امامیہ سارے
[1] ایقاظ الہجعۃ في اثبات الرجعۃ ۲۹۔ [2] الرجعۃ ص ۱۱۔ [3] عقائد الإمامیۃ اثنا عشریۃ ۲/ ۲۲۸۔