کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 234
تادیب میں ا نبیاء کرام علیہم السلام کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اور دینی معاملات میں سے کسی معاملہ میں بھی ان سے بھو ل کا سرزد ہوجانا جائز نہیں ہے۔ اور نہ ہی احکام میں سے کسی چیز کو بھولتے ہیں اوریہی سارے امامیہ شیعہ کا مذہب ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان سے علیحدہ ہوگئے، اور انہوں نے ظاہری روایات پر عمل کیا ؛ ان (روایات) کی تاویلیں اس باب میں ان (ظاہر پر چلنے والے) لوگوں کے فاسد گمان کے خلاف ہیں۔ ‘‘[1]
نیز امام کی شروط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ جانتا ہوجو کچھ اسے پہنچنے والا ہے، اور جو کچھ اس کے ساتھ ہونے والا ہے۔ ابو عبد اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ہے :
’’ جو بھی امام یہ نہ جانتا ہو جو کچھ اسے پہنچنے والا ہے ؛ اور جو کچھ ہوگا، وہ خلق پر اللہ تعالیٰ کی حجت نہیں ہوسکتا۔ ‘‘[2]
ایسے ہی جب وہ (امام) کسی چیز کے جاننے کا ارادہ کرتا ہے ؛ اللہ تعالیٰ اسے اس چیز پر مطلع کر دیتے ہیں، جیسا کہ ابو عبد اللہ سے روایت ہے ؛ انہوں نے کہا ہے :
’’ جب امام کسی چیز کو جاننے کا ارادہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا علم عطا کردیتے ہیں۔‘‘[3]
ان کے معاصر علماء بھی صراحت کے ساتھ یہی بات کہتے ہیں : محمد جواد مغنیہ کہتا ہے:
شیعہ امام نے کہا ہے : ’’ واجب ہے کہ کمال کی تمام صفات میں امام اپنی تمام رعیت سے افضل ہو؛ فہم میں، رائے میں، علم میں ارادہ میں ؛ کرم میں ؛ شجاعت، حسن خلق، عفت، زہد؛ عدل؛ تقویٰ؛ شرعی سیاست؛ اور اس طرح کی دیگر صفات۔ دوسرے لفظوں میں یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہو۔ اور ان میں سب سے زیادہ علم والا اور نیکی [و بھلائی ]اور خیر کے کام کرنے والا ہو۔‘‘[4]
علی البحرانی کہتا ہے :
’’ جان لیجیے کہ یہ بات واجب ہے کہ امام کا معصوم ہو: گناہوں کے ارتکاب سے؛ اوراحکام میں خطاء سے؛ ایسے ہی واجب ہے کہ وہ غلطی؛ اور بھول اور نسیان سے بھی معصوم ہو، ؛ اس لیے کہ وہ لوگوں کا رہنما، اور اہل اسلام کی قابل اعتماد شخصیت ہے۔ ‘‘[5]
[1] الحکومۃ الإسلامیۃ ص ۴۱-۴۲۔
[2] الأنوار النعمانیۃ ۱/ ۳۴۔