کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 233
اور ہو سکتا ہے کہ زمانے کی کتنی ہی صدیا ں اور لمبا ہو۔ اس سے پہلے کہ امام منتظر (اللہ تعالیٰ اسے جلدی باہر نکالے)؛ اس کے لیے مناسب ماحول میسر آئے، اب ان حالات میں کیا اسلامی احکام اور قوانین شریعت کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے، یہاں تک کہ اس کا ظہور ہو۔ اور لوگ غیبت کبریٰ کا یہ لمبا انتظار کا عرصہ بلا مکلف شریعت ہونے کے ایسے ہی گزار دیں، حالانکہ وہ شہوت کی راہ پر لگے ہوئے ہیں۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ شریعت اسلامیہ ایک محدود مدت کے لیے تھی، یعنی صرف دو سو سال کی مدت۔ یہ شریعت کا سب سے رسوا کن نسخ ہے جس کا ہم نہیں کہہ سکتے ؛ اور نہ ہی کوئی مسلمان اس کا کہہ سکتا ہے۔ (یہاں تک کہ وہ کہتا ہے): ہر گز ایسا نہیں ؛ پھر کہتا ہوں، ہر گزایسا نہیں۔ بے شک اسلام کسی بھی معاملے کا علاج کامیاب ترین علاج پیش کرتا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے معاملات عادل فقہاء کو تفویض کیے ہیں ؛ جن میں علم اور عدالت کی شرطیں جمع ہوں۔ یہ وہ معتبر شرط ہے جو علی الاطلاق ولی الامر میں متوفر[ موجود ] ہونی چاہیے۔ ‘‘[1]
یہ خمینی کا اعتراف ہے کہ مہدی کے غائب ہونے کے نتیجہ میں روافض کے ہاں بہت سارے قوانین شریعت معطل ہو کر رہ گئے ہیں بلکہ اس کا نظریہ ہے کہ امام مہدی کا غائب ہونا شریعت کا سب سے بد ترین نسخ ہے ؛ اس لیے کہ فقہاء میں کوئی ایسا نہیں پایا جاتا جو امام کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے اس کی نیابت کر ے۔
خمینی نے جو بیان کیا ہے کہ امام کے غائب ہونے کا کہنا، اس کی آخر کا ر نتیجہ ان کے ہاں شریعت کا منسوخ ہونا ہے۔ یہ حق بات اللہ تعالیٰ نے خمینی کی زبان سے نکال دی تاکہ ان پر حجت ثابت ہو جائے۔
رہا اس کا ’’امام کی طرف سے فقیہ کی نیابت کے درست ہونے کا ؛ جب اس میں علم اور عدالت کی شروط پائی جائیں ؛ اور خمینی کی نظر میں اس دلدل سے بھاگنے کا واحد راستہ ہے ؛جس میں وہ اپنے آپ کو پارہے ہیں ؛ سو خمینی کا قول نا قابل ِ قبول ہے۔ اس لیے کہ رافضہ کے ہاں امامت کی شرائط علم اور عدالت پر منحصر نہیں ہیں ؛ بلکہ امامت کے لیے مذکورہ شرائط کے علاوہ کچھ اورشرائط بھی ہیں، جن پر ان کی کتب میں موجود روایات دلالت کرتی ہیں۔
الجزائری نے رضاء علیہ السلام سے روایت کیا ہے :
’’ امام کے لیے کچھ نشانیاں ہیں کہ وہ لوگوں میں سب سے بڑھ کر عالم ہو، اور سب سے زیادہ حکمت والا ہو، اور لوگوں میں سب سے بڑھ کر متقی ہو، اور سب سے زیادہ نرم مزاج ہو، اور لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہو۔‘‘[2]
اور مفید کہتا ہے :
’’بے شک ائمہ احکام نافذ کرنے میں اور حدود قائم کرنے ؛ شرائع کی حفاظت کرنے میں ؛ اور لوگوں کی
[1] الأنوار النعمانیۃ : نعمۃ اللّٰه الجزائری ۱/ ۳۴۔
[2] منہاج السنۃ ۸/ ۲۶۱-۲۶۲۔