کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 232
نہیں ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کی وجہ سے ممکن ہوا۔
تیسری وجہ :مہدی سے عدم ِ منفعت :
رافضہ کے عقیدہ کے مطابق مہدی منتظر سے [ کسی کو بھی ]کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
رافضی جس مہدی کا دعویٰ کرتے ہیں اس سے امور ِ دین و دنیا میں کوئی بھی مصلحت [ یا فائدہ ] حاصل نہیں ہوا۔ اور نہ ہی عام مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ ہوا؛ نہ ہی رافضہ کواور نہ ہی ان کے علاوہ کسی دوسرے کو۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ بے شک یہ معصوم جس کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں وہ آج سے چار سو پچاس سال[1]پہلے پیدا ہوا، اور ۲۶۰ ہجری کو غار میں داخل ہوگیا؛ اور اس وقت بعض کے نزدیک اس (امام) کی عمر پانچ سال تھی اور بعض کے نزدیک اس سے بھی کم۔ اور اس کی امارت میں اس سے کوئی ایسی چیز ظاہر نہیں ہوئی جو لوگوں میں سے کوئی کم درجہ کا امیر (حاکم / سربراہ) کرتا ہے، جیسے کوئی والی ؛ یا جج، یا عالم و فاضل ؛ چہ جائے کہ امام معصوم ؟ اگر ایسا امام موجود ہے ؛ تو اس کے وجود کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اور اگر وہ امام ہی معدوم ہو تو پھر کیا حال ہوگا؟ اور وہ لوگ جو اس معصوم پر ایمان رکھتے ہیں ؛ انہیں کون سی مہربانی یا دین یا دنیا کاکون سا فائدہ حاصل ہوا۔ پھر آگے فرماتے ہیں :
’’رہا یہ (امام) جس کا دعویٰ رافضی کرتے ہیں، یا تو ان کے ہاں مفقود ہے، یاپھر عقلاء کے ہاں معدوم ہے۔ خواہ ان دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، اس امام کا دین اور دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘[2]
سو مہدی کا اتنے لمبے عرصہ تک غار میں چھپ جانے میں کسی ایک کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ معاملہ الٹ ہے؛ کیونکہ رافضہ کے ہاں اس کے چھپ جانے کی وجہ سے بہت ساری دینی اور دنیاوی مصلحتیں فوت ہوجائیں گی۔ اس لیے کہ رافضہ کے عقائد میں سے ہے کہ امامت اصول ایمان میں سے ایک اصل اور اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اور کسی انسان کا ایمان امام کی معرفت اور اس کی ولایت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔جب حال یہ ہوتوقائم منتظر کا چھپ جانا (جو کہ ان کے ہاں بارہواں امام تصور کیا جاتا ہے)؛ اگر فرض کریں کہ اس کے وجود کو تسلیم کربھی لیاجائے، تو اس وجہ سے ان کے ہاں بہت ساری دینی اوردنیاوی مصلحتیں فوت ہو رہی ہیں ؛ جس کا اعتراف ان کے معاصر امام اور حجت عظمیٰ آیت اللہ خمینی نے کیا ہے ؛ وہ کہتا ہے :
’’بے شک ہم اس غیبت کبریٰ کے زمانے میں ہیں اور امید کا عرصہ بارہ سو سال سے زیادہ بیت چکا ہے۔