کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 228
ابو عبد اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
’’ امام حسن اور حسین کے بعد امامت دو بھائیوں میں جمع نہیں ہوسکتی بلکہ یہ پیچھے آنے والوں میں اور ان کے پیچھے آنے والوں میں ہوگی۔ ‘‘[1]
اور اس [مذکورہ تصوراتی ] مہدی کی عدم ِ پیدائش خود رافضیوں کی کتابوں میں بھی ثابت ہے۔ ان کی کتابوں میں ہے کہ حسن عسکری کا انتقال ہوا تو اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ عباسی خلیفہ اس مسئلہ کی بڑے اہتمام کے ساتھ مسلسل متابعت کرتا رہا، اور اس نے اس مسئلہ کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے بڑے بڑے قاضی بھیجے اوران کے ساتھ وہ لوگ بھی گئے جو صداقت و امانت میں مشہور و معروف تھے؛ تاکہ وہ چھان بین کر کے اس مسئلہ کی حقیقت آشکار کرسکیں۔ یہ لوگ حسن عسکری کی اس بیماری ؛جس میں اس کا انتقال ہواتھا، مسلسل آپ کی صحبت میں رہے۔ عسکری کی وفات کے بعد اس کے گھر میں بھی تفتیش کروائی گئی۔ پتہ چلا کہ امام مذکور نے کوئی اولاد اپنے پیچھے نہیں چھوڑی۔ اور عورتوں کو مکلف بنایا کہ ان کی لونڈیوں کے ساتھ رہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کے بھی حاملہ نہ ہونے کی تصدیق ہوگئی، پھر ان [ یعنی حسن عسکری ]کا ترکہ ان کی ماں اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کردیا گیا، جس کا کوئی اور دعویدار نہیں تھا۔
اس پر اصول کافی کی ایک طویل روایت بھی دلالت کرتی ہے، جسے کتاب الحجہ میں احمد عبید اللہ بن خاقان سے روایت کیا گیا ہے۔ اس میں ہے :
’’جب حسن عسکری بیمار ہوگئے تو میرے ابا کے پاس آدمی بھیجا گیا کہ ’’ ابن الرضا ‘‘ بیمار ہے۔ وہ اسی لمحے سوار ہوئے، اور دار الخلافہ پہنچے۔ پھرجلدی سے واپس آئے، اور ان کے ساتھ امیر المومنین کے پانچ سو خادم تھے۔ سارے کے سارے خواص میں سے اور ثقہ لوگ تھے۔ ان میں ’’نحریر ‘‘ بھی تھا۔ انہیں حکم دیا کہ وہ حسن کے گھر رہیں، اور اس کے حال احوال معلوم کرتے رہیں۔ اور ڈاکٹروں کی ایک جماعت کی طرف قاصد بھیجے۔ اور انہیں حکم دیا کہ وہ صبح و شام باری باری ان کی عیادت و علاج کے لیے آتے رہیں۔ اس واقعہ کے دو یا تین دن بعد خبر آئی کہ وہ[حسن عسکری] بہت ہی ضعیف ہوگے ہیں تو ڈاکٹروں کو حکم دیا گیا کہ وہ ان کے گھر پر ہی رہیں،اور قاضی القضاۃ کو ان کے گھر پر بلا لیا۔ اور حکم دیا کہ ان میں سے ان دس افراد کو چنا جائے، جن کے دین و ایمان پر وہ راضی اور خوش ہوں، پھر انہیں بلایا، اور حسن کے گھر بھیج دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ مستقل طور پر رات دن ان کے گھر پر ہی رہیں۔ وہ ادھر ان کے گھر پر ہی رہے یہاں تک کہ حسن عسکری کا انتقال ہوگیا۔ پھر اس کے بعد ’’ سُرَّ من ْ رأی ‘‘ ایک شوشہ بن گیا۔ سلطان نے ان کے گھر تفتیشی بھیجے جنہوں نے ان کے حجرہ کی تفتیش کی۔اور جو کچھ وہاں پایا گیا، اس پر مہر
[1] ظفر الإسلام خان : التلمود تاریخہ و تعالیمہ : ص ۵۹۔
[2] ظفر الإسلام خان : التلمود تاریخہ و تعالیمہ : ص ۵۹۔