کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 227
(انسان ) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے۔ ‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَآتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ﴾ (البقرۃ: ۸۷)
’’اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مدد دی۔‘‘
ان تمام دلائل کے بعد مسیح منتظر کے بارے میں یہودیوں کے دعویٰ کا باطل ہونا کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے انبیاء علیہم السلام کی کتابوں کی جن نصوص سے استدلال کرتے ہیں، جو انہیں آل داؤ د سے ایک انسان کے خروج کی بشارت دیتی ہیں ؛ جو یہودی گمان کے مطابق ان کی عزت و کرامت انہیں لوٹائے گا۔ بے شک یہ بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تھی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دو ہزار سال پہلے مبعوث فرمایا؛ مگر یہود نے انہیں جھٹلایا، اور ان سے بہت ہی سخت دشمنی کی۔
یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت کے انکار کی جتنی بھی کوشش کرلیں، ان میں سے پھر بھی ایسے احبار گزرے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
تلمود میں ایک احبار سے روایت نقل کی گئی ہے۔ [وہ کہتا ہے ]:
’’بے شک مسیح موعود کے آنے کا مقرر وقت گزر چکا ہے۔ ‘‘[1]
حاخام ’’راؤ ‘‘کہتا ہے :
’’ بے شک مسیح کے آنے کے مقرر دن گزرے ہوئے ایک لمبا زمانہ ہوگیا۔ ‘‘[2]
ثانیاً:را فضیوں پر ردّ:
رہا رافضیوں کا ان کے مہدی منتظر کے متعلق ان کا عقیدہ ؛ تو یہ ایک باطل عقیدہ ہے، جس کے باطل ہونے پر کئی وجوہ سے استدلال کیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ : اس مہدی کے پیدا ہونے کاعدم ِ ثبوت:
اللہ تعالیٰ عالی قدرت والے کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ رافضیوں کے گیارہویں امام حسن عسکری کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ ان کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ یہ ان [رافضہ ]کے لیے ایک بہت بڑی رسوائی ؛ انتہائی عبرتناک ذلت تھی۔ اس لیے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امام مر جائے اور وہ اپنے پیچھے کوئی اولاد نہ چھوڑے جو امامت میں اس کا خلیفہ بنے۔
جبکہ شیعہ عقیدہ اس بات پر منصوص ہے کہ امام کی وفات کے بعد امامت اس کی اولاد میں ہی ہوگی؛ اور یہ قطعاً جائز نہیں ہے کہ امامت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے بعدبھی بھائیوں میں منتقل ہو۔ [بلکہ اولاد میں منتقل ہوگی]۔
[1] التجربۃ الأخیرۃ للمسیح ‘‘ بواسطۃ ’’ الیہود مغضوب علیہم ‘‘ ص ۴۷۔