کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 224
وہ عنقریب آئے گا۔[اور مسیحِ ہدایت کے آنے پر بھی متفق ہیں ]۔ مسلمان اور عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ مسیحِ ہدایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم ہیں۔ اور یہودی اس بات کا انکار کر تے ہیں کہ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہوں ؛ اس کے باوجود کہ وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم جناب حضرت داؤد علیہ السلام کی اولا د میں سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : اس لیے کہ جس مسیح کی بشارت دی گئی ہے، اس پر تمام امتیں ایمان لائیں گی۔ اور وہ یہ گمان کرنے لگے کہ : مسیح [عیسیٰ بن مریم ] صرف نصرانیت دے کر بھیجے گئے ہیں۔ اور اس دین کا باطل ہونا ظاہر ہے، اس لیے جب گمراہی پھیلانے والا مسیح نکلے گا تو اس کی اتباع کریں گے اور اس کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے۔‘‘[1] اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہودی کتابوں میں مسیح علیہ السلام کے ظاہر ہونے کی جو بشارات آئی ہیں، بے شک ان سے مقصود عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تھے۔ مگر یہودی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی بیان کردہ ان مثالوں کو ان کے ظاہری معانی کے علاوہ نہ سمجھ سکے ؛اوروہ ان کے عقلی معانی سے غافل ہی رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح عیسیٰ بن مریم سے انہوں نے دشمنی اپنا لی ؛ اور ان کا شمار کافروں اور مرتدوں میں کرنے لگے، اور ان کی والدہ محترمہ پر بھی طرح طرح کے بیہودہ الزامات دھرے۔ ذیل میں کچھ وہ مثالیں دی جارہی ہیں یہ در اصل وہ الزامات ہیں جو یہودی حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ پردھرتے ہیں۔ تلمود میں ہے : ’’ بے شک مسیح جادو گر اور بت پر ست تھا۔‘‘[2] ایک دوسری جگہ میں لکھا ہے: ’’ بے شک مسیح پاگل تھا۔‘‘[3] یہودی درویش ان کے متعلق کہتے ہیں : ’’ وہ کافر تھا، اللہ تعالیٰ کو جانتا ہی نہیں تھا۔‘‘[4] نیز ان کے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ : ’’ وہ مرتد یہودی ہے۔‘‘[5] تلمود میں ایک بڑے یہودی ’’میانمود‘‘سے منقول ہے : ’’وہ مسیحی جو یسوع کی گمراہیوں کی پیروی کرتے ہیں، وہ بت پرست ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے ہی معاملہ کرنا لازم ہے جیسے بت پرستوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور ان دونوں کی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں پایا
[1] یہ نصوص ’’سفر اشعیا‘اصحاح ۱۱‘ فقرات ۶-۸ میں وارد ہوئی ہیں۔ [2] افحام الیہود ص ۱۲۶-۱۲۷۔