کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 211
گئی۔ وہ برابر اس کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ ہر دن گھوڑا لے کر غار کے دھانے پر کھڑے ہوتے ہیں، اور چیخ کر پکارتے ہیں کہ وہ ان کی طرف نکل آئے؛ اے ہمارے آقا ! نکل آئیے۔ پھر ناکام و نامراد واپس لوٹتے ہیں۔ یہی ان کی بھی عادت ہے، اور ان کے امام کی بھی۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے :
’’اس غار کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس انسان کو پیدا کرے جس سے تم اپنی جہالت کی وجہ سے ہم کلام ہوتے ہو۔تمہاری عقلوں پر پردے پڑچکے ہیں، تمہاری عقل بچوں کی طرح ہیں، یا پرندوں کی طرح۔‘‘[1]
یہ لوگ اب بنی آدم پر عاراور ٹھٹھہ بن چکے ہیں، جن کا ہر عاقل انسان مذاق اڑاتا ہے۔‘‘
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ الفتن و الملاحم ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ فصل : مہدی کے تذکرہ میں جو آخری زمانے میں آئے گا؛ وہ ہدایت یافتہ خلفاء اور ہدایت یافتہ ائمہ میں سے ایک ہوگا ؛ اور یہ وہ مہدی نہیں ہے جس کے متعلق رافضی تصورات میں کھوگئے ہیں۔ اور سامراء کے غار سے اس کے ظاہر ہونے کا انتظار کررہے ہیں، اس لیے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی وجود یا نام و نشان ہے۔ اور گمان کرتے ہیں کہ یہ محمد بن حسن عسکری ہے ؛ اور یہ غار میں اس وقت داخل ہوگیا جب اس کی عمر صرف پانچ برس تھی۔ ‘‘[2]
ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں :
’’ مہدی نکلیں گے اور ان کا خروج بلادِ مشرق میں ہوگا نہ کہ سامراء کے غار سے، جیسا کہ جاہل رافضی گمان کرتے ہیں کہ اب بھی وہ غار میں موجود ہے۔ اور آخری زمانے میں اس کے نکلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا رندانہ کلام اور شیطان کی جانب سے ان کی ذلت اور رسوائی کی ایک بہت بڑی حصہ ہے۔ کیونکہ (اس امام کے وجود پر) اللہ تعالیٰ کی کتاب صحیح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؛یا استحسان سے کوئی دلیل موجود نہیں ؛ اورنہ ہی یہ کوئی صحیح اورمعقول بات ہے۔ ‘‘[3]
علامہ سفارینی رحمۃ اللہ علیہ ’’ لوامع الأنوار ‘‘ میں امام مہدی کے بارے میں اہل ِ سنت و الجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’رہا شیعہ کا یہ گمان کہ اس کا نام محمد بن حسن ہے ؛ اور یہ ہی محمد بن حسن عسکری ہے، یہ ایک بہکی ہوئی بات ہے۔ اس لیے کہ محمد بن حسن کا انتقال ہوگیا تھا، اور اس کے باپ حسن کی میراث اس کے چچا جعفر نے
[1] یہ پانچ سو سال علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے زمانے میں ہوئے تھے۔