کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 210
اگر ہم امام مہدی اور ان کی صفات کے بارے میں جو کچھ اہل تشیع کی کتابوں میں وارد ہوا ہے، اس کا مقارنہ اہل ِ سنت و الجماعت کے ہاں امام مہدی کی صفات میں وارد صحیح احادیث سے کریں توپتہ چلے گا کہ رافضی امام مہدی اوراہل سنت و الجماعت کے(سنی ) امام مہدی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کے بارے میں قدیم اور جدید ہر دور کے علماء متنبہ کرتے رہے ہیں اور انہوں نے صراحتاً یہ بات لکھی ہے کہ شیعہ کا امام مہدی ؛ جس کے وہ دعویدار ہیں ؛ وہ وہ امام مہدی نہیں ہے جس کی صفات صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ اس بارے میں ذیل میں ہم اہل ِ سنت و الجماعت علماء کے اقوال پیش کرتے ہیں : امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ المنار المنیف ‘‘ کی اس فصل میں جو انہوں نے امام مہدی کے متعلق احادیث اور لوگوں کے اقوال کے لیے خاص کی ہے، فرماتے ہیں : ’’تیسرا قول (اس بارے میں یہ ہے کہ ) وہ اہلِ بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ؛ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوگا۔ وہ آخری زمانہ میں تشریف لائے گا ؛ اس وقت زمین ظلم و زیادتی سے بھری ہوگی ؛ وہ اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا اور اکثر احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘ اس کے امام حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہونے میں ایک باریک راز ہے۔ وہ یہ کہ حضرت نے صرف اللہ کی رضا کے لیے خلافت سے تنازل کر لیا تھا تو اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں ایسا آدمی پیدا کرے گا جو حق کے ساتھ خلافت قائم کرے گا۔جس میں ایسا حق ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور اللہ تعالیٰ کی اس کے بندوں میں یہی سنت ہے کہ جوکوئی اس کے لیے کوئی چیز ترک کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اور اس کی اولاد کو اس سے بہتر عطا کرتے ہیں۔ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ کے الٹ ہے۔ انہوں نے خلافت حاصل کرنے کی کوشش کی ؛ اور اس کے لیے انہوں نے قتال کیا، [اور ظاہری طور پر ] اس میں کامیاب نہیں ہوسکے [اور شہید ہوگئے]۔واللہ اعلم پھر اس کے بعد فرماتے ہیں : ’’اس سلسلہ میں چوتھا قول رافضہ امامیہ کاہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس مہدی کانام محمد بن حسن عسکری ہو گا،وہ حسین بن علی کی نسل سے ہوگانہ کہ حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے۔ جو شہروں میں توموجودہے مگر نظروں سے غائب ہے۔ جس نے لاٹھی وراثت میں پائی ہے، اورچاندی کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہے۔ ابھی وہ چھوٹا تھا کہ سامراء کے غار میں داخل ہوگیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک پانچ سوسال[1] (اب تقریباً بارہ سو سال ) سے زیاد ہ ہوگئے ہیں، اسے پھر دوبارہ نہ ہی کسی آنکھ نے دیکھااور نہ ہی اس کی خبر محسوس کی
[1] عقیدۃ أھل السنۃ والأثر فی المہدی المنتظر للشیخ عبد المحسن العباد ص ۱۶۶۔ [2] رواہ أبوداؤد کتاب المہدی؛ ح: ۴۲۸۴۔ وأخرجہ الترمذي فی کتاب الفتن‘ باب: ما جاء فی المہدی؛ ح: ۵۴۵۲۔ وقال حدیث حسن صحیح۔ قال الألباني : إسنادہ حسن ‘ مشکاۃ المصابیح ۳/ ۱۵۰۱۔ و أخرجہ الحاکم في المستدرک ۴/ ۵۵۷؛ من حدیث عمران بن قطان وصححہ علی شرط مسلم ؛ وتعقبہ الذہبي وقال: قتادۃ مدلس و عنعن۔ وللحدیث شواہد۔ [3] رواہ أبوداؤد کتاب المہدی؛ ح: ۴۲۸۵۔ قال ابن القیم: إسنادہ جید؛ المنار المنیف (تحقیق محمود استنبولي)؛ ص ۱۴۱۔ قال الألباني : إسنادہ حسن ‘ مشکاۃ المصابیح ۳/ ۱۵۰۱۔ ح : ۵۴۵۴۔ [4] أخرجہ الترمذي في کتاب الفتن ‘ باب : ما جاء في المہدی؛ ح: ۵۴۵۵۔ وقال حدیث حسن صحیح۔