کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 21
سی مشابہات کا ذکر کیا ہے جیساکہ بہت سے معاصر اہل قلم اور بعض مستشرقین نے بھی رافضیوں کی یہودیوں سے مشابہت ذکر کی ہیں۔ [1]
میں نے بھی مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر کچھ لکھ کر اپنا حصہ ڈالوں۔اور جس چیز کو علماء نے مجمل بیان کیا ہے، اس کی تفصیل بیان کروں۔اور جس کو مختصر ذکر کیا ہے، اسے شرح و بسط سے بیان کروں ؛ مبہم چیز کی شرح کروں اور جو انہوں نے ذکر کیا ہے اس کی توثیق کروں۔
اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ کتاب لکھوں۔ جس میں اس کے متفرقات کو جمع کیا جائے۔ جس سے دوریاں ختم کی جائیں ‘اولا مسائل کی باریکیوں اور غرائب کو ہر اس انسان کے لیے کھولا جائے جو حقیقت کا متلاشی ہو۔
اس کے پیش کرنے میں عبارت کی وضاحت اور اسلوب کی سہولت کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ اور اس کے ساتھ علمی بحث کے منہج پر چلا جائے تاکہ قارئین کی بڑی تعدادبغیر کسی مشقت و تنگی کے اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ اور میں نے اس کا نام رکھا ہے :’’بذل المجہود فی مشابہۃ الرافضۃ بالیہود۔‘‘
اس کتاب کے لکھنے کے لیے میں ایک خاص ڈھنگ پر چلا ہوں، جسے میں نے خود ہی اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ جس کا خلاصہ ان نقاط کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے:
اولاً:… میں نے اس بحث میں یہود اور رافضہ کے عقائد میں مشابہت کاذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے؛ جبکہ باقی امور میں مشابہت کا ذکرکرنے سے اعراض کیا ہے۔ اور وہ عقائد بھی بیان نہیں کیے جن میں رافضیوں کے علاوہ دوسرے فرقے بھی یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ثانیاً:… میں نے اس بات کا پکا التزام کیا ہے کہ کوئی بھی عقیدہ ان (یہود اور روافض )کی طرف اس وقت تک نہ منسوب کروں جب تک کہ ان کی اصلی کتابوں سے اس کی توثیق نہ ہوجائے اور دلیل نہ مل جائے۔
ثالثاً:… میں نے بقدر استطاعت اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ معاصرین یہود اور روافض کے ان کے اسلاف سے موروثی عقائدکو ثابت کروں،اور یہ کہ معاصرین یہود اور روافض ابھی تک اس عقیدہ پر مضبوطی سے قائم ہیں۔اس بات کی تائید میں ان کے معاصرین کے جوبھی اقوال مجھے ملے ہیں ؛میں نے ذکر کردیے ہیں۔
رابعاً:… میں نے یہودیوں اور رافضیوں کے عقائد پیش کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان دونوں میں مشترکہ عقیدہ ایک الگ فصل میں بیان کروں،یہ فصل چار مباحث پر مشتمل ہوگی :
پہلی بحث یہودی عقیدہ کیساتھ خاصہوگی۔جبکہ دوسری بحث رافضی عقیدہ کے بیان کیلئے خاص ہوگی اورتیسری بحث میں دونوں کے عقائد میں موازنہ کیا جائے گا، پھر چوتھی بحث میں ان دونوں کے عقائد پر رد کیا جائیگا۔ میرا یہ منہج تمام
[1] ان علماء کے اقوال جاننے کے لیے اس کتاب کے مدخل میں دوسری فصل کی پانچویں بحث ملاحظہ کریں۔