کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 208
بلکہ آلِ داؤد کے احکام کے مطابق احکام جاری کرے گا، جیسا کہ اس بات کی وضاحت خود رافضیوں نے اپنی کتابوں میں کی ہے۔
کافی میں ابو عبد اللہ علیہ السلام سے منقول ہے، بے شک انہوں نے فرمایا:
’’دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی ؛ یہاں تک کہ مجھ سے ایک آدمی نکلے جو آل ِ داؤد کے حکم پر حکمرانی کرے گا، اور کسی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ اور جی کو اس کا حق دے گا۔‘‘[1]
بصائر الدرجات میں ہے، ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ جب آل ِ محمد سے قائم ظاہر ہوگا توداؤد اور سلیمان کے حکم پر حکمرانی کرے گا، اور کسی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ ‘‘[2]
رافضیوں کا مہدی وہ مہدی نہیں ہے جس کے آخری زمانے میں آنے کااعتقاد اہل ِ سنت و الجماعت رکھتے ہیں۔ رافضیوں کے مہدی کی یہ اہم صفات اور سیرت اور اس کے شیعوں کے احوال بیان کرنے ؛ اور جو کچھ زمین پر رونماہوگا، اور جو لوگ اس کے خروج کے وقت ہوں گے بیان کرنے کے بعدایک اہم معاملہ پر تنبیہ کرنا بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ :
’’وہ رافضی مہدی جس کی صفات کاتذکرہ ابھی گزرا وہ دوسرا مہدی ہے ؛ جس کے متعلق اہل تشیع اور رافضی گمان کرتے ہیں۔ جب کہ وہ مہدی جس کے آخری زمانہ میں خروج کا اعتقاد اہل ِ سنت و الجماعت رکھتے ہیں ؛ وہ دوسرا ہے، [اس کی صفات اس سے مختلف ہیں ]
علماء اہل سنت کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آخری زمانے میں اہل ِ بیت ِ نبوت سے ایک آدمی پیدا ہوگا، جو مہدی کہلائے گا۔ اس مہدی کی اہم صفات صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
اس مہدی کانام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے موافق ہوگا اور اس کے والد کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام پر ہوگا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرے گا کوئی بھی مردہ سنت باقی نہیں رہ جائے گی جسے وہ دو بارہ زندہ نہ کردے اور تمام بدعات کو ختم کردے گا، آخری زمانے میں دین کو قائم کرے گا؛ اوردنیا پر بادشاہی کرے گا؛ اور اسے عدل و انصاف سے ایسے ہی بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔وہ صلیب کو توڑ ڈالے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا۔[3]
امام مہدی کا آخری زمانہ میں تشریف لانا اہل ِ سنت و الجماعت کے نزدیک ثابت ہے۔مہدی کی احادیث کو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ان صحابہ میں : حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
[1] بحار الأنوار ۵۲/ ۳۳۵۔
[2] روضۃ الکافی : للکلینی ۸/ ۲۴۱۔
[3] بحار الأنوار ۵۲/ ۳۱۷۔
[4] المفیدص ۸؛ بحار الأنوار ۵۲/ ۳۷۲۔