کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 203
وہ بعض اجناس کی وجہ سے جنگ کرے گا۔ اور جن لوگوں کو ان کا یہ تصوراتی مہدی قتل کرے گا، ان میں عرب بھی ہوں گے ؛ اور بالخصوص قریش ہوں گے۔ مجلسی نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے:
’’جب قائم کا خروج ہوگا تو اس کے اور عربوں کے درمیان فیصلہ تلوار سے ہی ہوگا۔ ‘‘[1]
اور ابو جعفر سے روایت ہے، وہ کہتا ہے :
’’ اگر لوگوں کو اس بات ک پتہ چل جائے کہ جب مہدی نکلے گا تو وہ لوگوں کو کیسے قتل کرے گا تو بہت سارے لوگ اس بات کی تمنا کرنے لگ جائیں کہ وہ اس کو دیکھیں ہی نہیں۔ صرف یہ کہ وہ (اپنی یہ جنگ) قریش سے ہی شروع کرے گا۔ ان سے تلوار کے سوا کچھ بھی قبول نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی انہیں تلوار کے علاوہ کچھ دے گا یہاں تک کہ بہت سارے لوگ کہیں گے : یہ آل محمد میں سے نہیں ہے۔ اگر یہ آل ِ محمد میں سے ہوتا تو ضرور رحم کرتا۔‘‘[2]
ایسے مردے بھی رافضیوں کے اس خیالی مہدی کے انتقام سے نہیں بچ پائیں گے۔ وہ انہیں ان کی قبروں سے نکالے گا، اور ان کی گردنیں مارے گا۔ مفید نے ابو عبد اللہ سے روایت کیاہے ؛ وہ کہتا ہے :
’’ جب آل ِ محمد میں سے قائم کھڑا ہوگا، تو وہ قریش کے پانچ سو لوگوں کو زندہ کرے گا، اور ان کی گردنیں مارے گا، پھر دوسرے پانچ سو (کے ساتھ بھی ایسے ہی کرے گا) ایسے وہ چھ بار کرے گا۔ ‘‘[3]
رافضیوں کا تصوراتی مہدی دو تہائی عالم کو قتل کرے گا ؛ یہاں تک کہ ایک تہائی لوگ رہ جائیں۔ اوریہ ایک تہائی صرف رافضہ ہی ہوں گے۔ احسائی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیاہے ؛ وہ کہتا ہے :
’’ یہ امر اس وقت تک قائم نہیں ہوگا یہاں تک کہ دو تہائی لوگوں کو ختم کردیا جائے۔ ان سے کہا گیا : جب دو تہائی لوگ چلے جائیں گے تو باقی کیا رہے گا ؟ توانہوں نے کہا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہوتے ہو کہ وہ باقی ایک تہائی تم ہی رہو۔ ‘‘[4]
رافضیوں کے اس مہدی کی سنگ دلی کا نہ پوچھیں۔ وہ غلاموں کو بھی قتل کرے گا، اور زخمیوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا اور کسی کی توبہ بھی قبول نہیں کرے گا۔ محمد بن علی الکوفی سے مجلسی نے روایت کیا ہے؛ وہ عبدالرحمن بن ابو ہاشم سے ‘ وہ ابو خدیجہ سے اوروہ ابو عبداللہ علیہ السلام سے روایت کرتا ؛ انہوں نے کہا ہے :بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’میں سوچتا تھا کہ غلاموں کو قتل کروں ؛ اور زخمیوں کو موت کے گھاٹ اتاروں لیکن میں نے یہ اپنے ساتھی کی عاقبت کے لیے چھوڑ دیا۔ اگروہ زخمی ہوجائیں تو قتل نہیں کیے جائیں گے ؛ اورقائم کو یہ اختیار حاصل
[1] الرجعۃ للأحسائی ص ۱۸۶-۱۸۷۔
[2] الأنوار النعمانیۃ ۱/ ۱۴۱۔
[3] الإیقاظ الہجعۃ ص ۲۴۴؛ بحار الأنوار ۵۲/ ۳۱۴۔