کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 20
لگائے۔‘‘ رافضی کہتے ہیں : ’’جہاد فی سبیل اللہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ مہدی منتظرکا خروج ہو؛ اور آسمان سے اس کے اسباب نازل ہوں۔‘‘ یہودی نماز مغرب میں تاخیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ستارے آپس میں مل جائیں۔ رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہودی تین طلاق کو معتبر نہیں سمجھتے اور رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہود کے ہاں عورتوں کی عدت نہیں ہے۔ ایسے ہی رافضہ کے ہاں بھی۔ یہودی ہر مسلمان کے خون کو حلال سمجھتے ہیں، رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی ؛ رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی۔ یہودی جبریل امین سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ یہ ملائکہ میں سے ہمارا دشمن ہے۔ جب کہ رافضی یہ بات کہتے ہیں کہ: ’’ جبریل علیہ السلام نے وحی میں غلطی کی؛ حضرت علی بن ابو طالب کوچھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا۔ یہودی اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے، ایسے ہی رافضی بھی۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی رافضیوں پر دو وجہ سے فضیلت ہے۔ یہودیوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ توکہنے لگے :’’ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ہیں۔‘‘ اورنصاریٰ سے پوچھا کہ تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ توکہنے لگے :’’ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی ہیں۔‘‘ رافضیوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے برے لوگ کون ہیں ؟ توکہنے لگے : ’’ محمد کے ساتھی ہیں۔‘‘[1]
اور رافضیوں کی یہودیوں سے مشابہت کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں کئی مواقع پر ذکر کیاہے۔ انہی میں سے آپ کا یہ قول بھی ہے :
’’ یہ بہت سارے امور میں یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں، خاص طور پر سامری یہودیوں کے ساتھ! کیونکہ یہ سامری یہودیوں سے باقی تمام اصناف یہود کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کسی متعین شخص یاقوم کے متعلق دعویٔ امامت میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔اور ان کے علاوہ ہر اس شخص کی تکذیب کرنے میں جو حق لے کر آئے اور انہیں اس حق کی دعوت دے۔ ایسے ہی نفس پرستی میں اور کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کرنے میں ؛افطار اور نماز ِمغرب کی تاخیر میں، اور دوسروں کے ذبیحہ کو حرام کرنے میں۔‘‘ (یہودی اور رافضی آپس میں بالکل مشابہ ہیں )۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’الرد علی الرافضۃ ‘‘میں وہ جملہ امور ذکر کیے ہیں جن میں رافضی یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔اور ایسے ہی شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ سے بھی ’’ تحفۂ اثنا عشریہ ‘‘ میں یہی منصوص ہے۔
عبد اللہ قصیمی نے اپنی کتاب ’’ الصراع بین الإسلام والوثنیہ ‘‘ میں یہودیوں اور رافضیوں کے مابین بہت
[1] ابن عبد ربہ :العقد الفرید:۲/۲۴۹؛ وانظر اللالکائی: شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ ج ۴ص ۱۴۶۱- ۱۴۶۳۔و ابن تیمیۃ : منہاج السنۃ :۱/۲۳-۲۷۔