کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 196
حاخاموں [بڑے علماء]کی رائییہ ہے کہ ان کی حکومت ہزاروں سال رہے گی۔‘‘[1]
مسیح منتظرکا حکومتی طریقۂ کار :
مسیح کی حکومت کا طریق کاریہ ہوگا کہ وہ جیسے سنے گا، یا دیکھے گا؛اس کے مطابق لوگوں میں فیصلے نہیں کرے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی قدرت دے گاکہ وہ گواہی کی طرف رجوع کیے بغیر لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کریں گے۔ مسیح کے اوصاف میں آیاہے:
’’ اس میں رب کی روح حلول کر جائے گی جوکہ حکمت اور دانش کی روح ہے؛ مشورہ اور قوت کی روح ؛ معرفت اور اللہ کے خوف کی روح؛ اور اس کی لذت رب کے خوف میں ہوگی۔ سو وہ اپنی آنکھوں کے دیکھے ہوئے کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا؛ اور نہ ہی اپنے کانوں سے سنے ہوئے کے مطابق فیصلہ کرے گا؛ بلکہ وہ مسکینوں کے ساتھ عدل کا فیصلہ کرے گا، اور زمین کے رہنے والوں کے ساتھ انصاف کا فیصلہ کرے گا۔‘‘[2]
یہود کے ہاں یہ مسیح کی چند ایک صفات ہیں۔ اور جو کچھ واقعات (یہودی گمان کے مطابق) ان کے دور میں پیش آئیں گے۔اس کے علاوہ بھی یہ موضوع بہت ہی وسیع ہے۔ جس کا احاطہ کرنے اور گہرائی میں جانے کے لیے اس طرح کی کتابوں کے صفحات کافی نہیں ہوسکتے۔
دوسری بحث :… رافضیوں کے ہاں مہدی منتظر
رافضیوں کے کھلے ہوئے اور نمایاں عقائد میں سے جس سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں، ایک مہدی منتظر کا عقیدہ ہے۔ اس مہدی منتظر سے امامیہ شیعہ کی مرا د : ’’ محمد بن الحسن العسکری ‘‘ ہیں ؛ جن کو وہ اپنا بارہواں امام مانتے ہیں۔ اور ان پر ’’الحجۃ ‘‘ لقب کا اطلاق بھی کرتے ہیں۔ اور انہیں ’’ القائم ‘‘ بھی کہتے ہیں۔[3]
ان کے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ مذکورہ مزعوم (امام) ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے اور ’’ سُرَّ مَنْ رأی ‘‘[4] نامی شہر کے ایک غار میں، ۲۶۵ ہجری میں غائب ہوگئے۔ اب شیعہ لوگ آخری زمانے میں ان کے نکلنے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ ان کے دشمنوں سے ان کا بدلہ لے، اور اُن کے خلاف اِن کی مدد کرے۔[5] آج تک رافضی اس غار کی
[1] ظفر الاسلام خان : التلمود ‘ تاریخہ وتعالیمہ ص ۶۰۔
[2] اصحاح ۳ ‘ فقرہ ۱۸۔
[3] اصحاح۷؛ فقرات ۱۷-۲۲۔
[4] ڈاکٹر روھلنگ : الکنزالمرصود ص ۶۴؛ و اسرائیل و تلمود ص ۶۷۔