کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 193
بیٹھوں گا؛ تاکہ ہر کونے کی تمام امتوں کے درمیان فیصلہ کروں۔‘‘[1]
اس عدالت کے نتیجہ کو سفر زکریا میں واضح کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس دن دو تہائی عالم کو قتل کردیا جائے گا۔اور زمین کے ہر کونے میں رب کہہ رہا ہوگا، ان میں سے دو تہائی کو کاٹ دیا جائے گا، وہ مرجائیں گے۔ اور ان میں سے ایک تہائی اس زمین میں باقی بچیں گے۔‘‘[2]
اور تلمود کی تعلیمات اس کومزید پختہ کرتی ہیں :
’’ اس سے پہلے کہ یہود باقی امتوں پر آخری حکومت کریں ؛ یہ لازم ہے کہ پاؤں اور پنڈلی پر ایک جنگ قائم ہو، جو دو تہائی عالم کو ختم کردے۔ اور یہود سات سال تک وہ اسلحہ جلاتے رہیں گے جو انہوں نے باقی امتوں سے حاصل کیا ہوگا۔ ‘‘[3]
اس وقت یہود باقی عالم پر مسلط ہوجائیں گے، اور باقی امتوں کے رہ جانے والے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیں گے۔سو یہ ان کے خدمت گزار ہوں گے ؛ اوران کی بکریوں کے چرواہے ہوں گے۔
’’ اجنبی لوگ کھڑے رہیں گے ؛ اور تمہاری بکریاں چرائیں گے۔ وہ پردیسیوں کی اولاد تمہاری کھیتی کریں گے، اور تمہارے نوکر ہوں گے۔ جب کہ تمہیں ’’کہنۃ الرب‘‘ کہا جائے گا۔ اور تمہارا نام ’’ہمارے الٰہ کے خادم‘‘ تم تمام امتوں کے مال کھاؤگے۔ اور تم ان کی بزرگی و کرامت پر حکم چلاؤ گے۔‘‘[4]
سفر اشعیا میں ہے : اللہ تعالیٰ صہیون کو ان الفاظ میں پکاریں گے:
’’ بنو غریب تمہاری دیواریں بنائیں گے ؛ اور ان کے بادشاہ تمہاری خدمت کریں گے، اس لیے کہ میں نے اپنے غصہ سے تمہیں مارا ہے، اور اپنی رضا مندی سے تم پر رحمت کی ہے۔ اور تمہارے سامنے دروازے ہمیشہ کھولے جائیں گے۔ رات دن کبھی ختم نہیں ہوں گے تاکہ تمہارے پاس تمام امتوں کی غنیمت لائی جائے ؛ اور ان کے بادشاہ تمہاری طرف چلائے جائیں گے۔ اس لیے کہ وہ امت اور وہ حکومت جو تمہاری خدمت نہیں کریں گے، انہیں ختم کردیا جائے گا۔اوران تمام امتوں کو خراب کرے گا۔ لبنان کی بزرگی تمہاری طرف لائی جائے گی۔ اور جنہوں نے تجھے جھڑکا ہے، ان کے بیٹے سرنگوں ہوکر تمہاری طرف چلے آئیں گے۔ اور وہ تمام لوگ جنہوں نے تیری اہانت کی ہے، وہ تیرے قدموں میں سجدہ کریں گے۔ اور تیرے لیے رب کے شہر قدس ِ اسرائیل کو تمہارے لیے چھوڑ دیں گے۔‘‘[5]
[1] اصحاح ۶۶ فقرہ ۲۴۔
[2] یہوشا فاط : بادشاہ اسأ کا بیٹا اور اس کے بعد مملکت یہوذا کے عرش پر اس کا خلیفہ تھا۔اس نام کا معنی عربی میں ہے (الرب الدیان) یعنی بدلہ دینے والا رب۔ اس وادی کا نام اسی بادشاہ کے نام سے لیا گیا ہے۔اس وجہ سے یہ وادی کی یہود کے ہاں بڑی مقدس ہے۔ قاموس الکتاب ص ۷۵۵- ۷۵۶۔
[3] اصحاح ۳ فقرات ۱-۲۔