کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 189
حقیقی مسیح آئے گا۔[1]اور اس منتظر کی مدد حاصل ہوگی۔اس وقت مسیح تمام لوگوں کے ہدیے قبول کرے گا، اور مسیحیوں کے ہدیے رد کردے گا۔‘‘[2]
یہودیوں کے ہاں اس عقیدہ کے وجود کی تاکید ان کے عظیم امام سموائیل بن یحییٰ مغربی[3] نے کی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت دی۔اس نے یہودیوں کے رد پر ایک کتاب لکھی اور ا س کا نام رکھا: ’’ إفحام الیہود‘‘ اس میں لکھا ہے :
’’یہود ایک ایسے قائم کا انتظار کررہے ہیں جونبی داؤد کی آل میں سے آئے گا۔ جب و ہ دعا سے اپنے ہونٹوں کو حرکت دے گا تو تمام امتیں مر جائیں گی۔اور یہود کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہے گا۔ اور یہ کہ یہ منتظر (ان کے گمان کے مطابق) وہ مسیح ہے جن کا ان سے وعدہ کیاگیا ہے۔‘‘[4]
یہاں تک کہ اس نے کہا ہے کہ :
’’ ایسے ہی وہ اس بات کا اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ: وہ بے شک یہ منتظر جب آئے گا تو ان سب کو القدس میں جمع کر ے گااور ان کے لیے ایک ملک ہوگا؛ باقی عالم ان کے علاوہ لوگوں سے خالی ہوجائے گا۔ اور موت ان سے ایک لمبی مدت تک رکی رہے گی۔‘‘[5]
مسیح منتظر کا عقیدہ صرف پرانے یہودیوں تک منحصر نہیں ہے، بلکہ اس دور کے یہودی بھی مسیح منتظر کے خروج کے خواب دیکھ رہے ہیں، اور پورے صبر کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
پروٹوکول میں یہودی حکماء نے لکھا ہے :
’’بے شک ہمارا ملک اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہوگا؛ اور آسمانوں سے اس کی مدد کی جائے گی۔ تاکہ ان تمام افکار کو مٹا کر رکھ دے جن سے ان نفوس کو دھوکا دیا جارہا ہے جن کا کوئی عقل نہیں ہے۔ اس وقت ہم اس بات پر قادر ہوں گے کہ ہم تمام امتوں میں آواز لگائیں : اللہ کے لیے نماز پڑھو، اور رکوع کرو؛ اس بادشاہ کے سامنے جو ازلی تقدیر کی نشانی اٹھائے ہے؛ اوروہ جس کی ذات کی قیادت اللہ تعالیٰ کررہے ہیں۔ اس
[1] الإصحاح فقرتا ۹-۱۰۔
[2] الإصحاح الحادی والستون فقرتا ۱-۲۔
[3] بولس حنا مسعد ہمجیۃ التعالیم الصہیونیۃ ص ۵۷۔