کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 184
ایک بھی حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نہیں تھا؛ جن کی امامت کا دعویٰ رافضی کرتے ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اس حدیث میں بارہ عادل خلفاء کے وجود پر دلالت ہے۔ یہ شیعہ اثنا عشریہ کے امام نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کے ائمہ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے لیے امارت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ جب کہ یہ(خلفاء) لوگ قریش میں سے تھے ؛ جو ایک دوسرے کے بعد پے در پے حاکم بنے، اور لوگوں میں عدل کے ساتھ فیصلے کرتے رہے۔ ان کی بشارت سابقہ کتابوں میں بھی وارد ہوئی ہے۔ پھر ان کے لیے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ یہ لوگ پے درپے آئیں، بلکہ ان کا وجود یکبارگی (یعنی پے درپے ) بھی ہوسکتا ہے، اور آگے پیچھے بھی۔ ان میں سے چار عہد ِ ولایت سے آئے، یعنی ابو بکر و عمر وعثمان اور علی ( رضی اللہ عنہم ) پھر وقفہ ہوا، پھر اللہ جس کو چاہے گا، لے آئے گا۔ اور اس وقت میں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ انہی میں سے ایک امام مہدی ہوں گے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے موافق ہوگا، اور کنیت کنیت، کے موافق۔‘‘[1]
دوسری وجہ :… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔ [یہ نہیں فرمایا کہ اولادِ حسین میں سے ہی ہوں گے] حسین کی اولاد تو قریش کا ایک جزء ہیں، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امامت ان میں ہی محدود نہیں ہے۔
واقع حال[زمینی حقائق] بھی یہود کے دعویٰ ’’باشادہی صرف آلِ داؤد میں ہی ہوسکتی ہے‘‘ کے باطل ہونے کی دلیل ہیں۔ اوراس میں رافضی دعویٰ پر بھی رد اور اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے جو امامت کو صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد تک ہی محدود کرتے ہیں۔
داؤد علیہ السلام کی حکومت ایک بڑا لمبا زمانہ ہوا ختم ہوچکی۔ یہ اس وقت ہوا جب ان کی مملکت کا سقوط بخت نصر بابلی بادشاہ کے ہاتھوں ہوا۔جب وہ ان کے ملک کے دار الحکومت یروشلم پر غالب آگیا۔اس نے شہر کے دیواریں گرادیں، ہیکل کو جلا دیا ؛ اور وہاں کے باشندوں کا قتل عام کیا۔ اور جو بچ گئے ان کو قیدی بناکر بابل لے گیا۔
یہودی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ بخت نصر کے ہاتھوں ان کے ملک کے سقوط کا یہ قصہ سفر ارمیاء کے اصحاح (۳۹)انتالیس میں یوں آیا ہے :
’’نویں سال جب یروشلم کا اقتدار مملکت یہوذا کے بادشاہ صدقیا[2]نے سنبھالا؛ تو دسویں مہینہ میں بابل کا
[1] شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبي العز الحنفي ص ۵۷۰۔
[2] صحیح مسلم ‘کتاب الإمارۃ‘باب: الناس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش ح: ۳۴۸۱۔
اس حدیث سے کچھ ایسا اشکال ہوسکتا ہے کہ بارہ خلفاء سے مراد بارہ امام ہوں گے حالانکہ دوسری حدیث میں ہے کہ : ’’ میرے بعد خلافت تیس سال تک ہوگی‘‘۔ان تیس سالوں میں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت پانچ خلیفہ گزرے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں خلافت سے مراد خلافت ِ نبوت ہے۔ اور بارہ خلفاء سے مراد عام خلافت ہے۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ : خلفاء تو بارہ سے زیادہ گزرے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : بارہ کا عدد حصر کے لیے نہیں ؛ بلکہ بارہ خلیفہ تو ہوں گے ‘ اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کا ہونا اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ان بارہ خلفاء کے دور میں بدعات اور شرکیات کی تائید نہ ہو‘ اور فرقوں کی تائید حکومتی سطح پر نہ ہو ‘ اور کام منہج نبوت کے مطابق چلتا رہے۔ پھر اس کے بعد ایسے خلفاء آئیں جو بدعات اور شرکیات میں مبتلا بھی ہوں ‘ اوران کی تائید پوری قوت کے ساتھ کریں ‘ جیساکہ بنو عباس کے وسطی دور میں ہوا۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان مختلف بارہ حکومتوں میں بٹ جائیں ‘ اور ہر حکومت کا سربراہ قریشی ہوگا۔ جیسے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث میں ہے : ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو‘ یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں ‘ اور وہ سب قریشی ہوں گے۔ (شاید یہ واقع بھی قیامت کے قریب ہوگا کہ بارہ خلیفہ مسلمانوں کی بارہ ٹکڑیوں پر ہوں )۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے سنا کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسریٰ کے سفید محل کو فتح کرے گی۔ …‘‘۔ مسلم ح: ۴۷۱۱۔ یہی امت کے گروہ بھی اس سے مراد ہوسکتے ہیں۔
[3] کشف الغمۃ لمعرفۃ الأئمۃ ۱/۵۷۔