کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 183
داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لیا۔ خلافت میں ان کی ترتیب اللہ کے ہاں ان کی فضیلت اور منزلت کے حساب سے تھی۔‘‘[1]
اگر خلافت وراثت کے ذریعہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی قرابت کی وجہ سے اس کے سب سے زیادہ حق دار جناب حضرتِ علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
رافضیوں کے اس دعویٰ اور مذہب کہ: ’’امامت کبھی اولاد ِ حسین سے باہر نہیں جائے گی‘‘باطل ہونے پر سنت میں بھی کافی دلائل موجود ہیں۔ امام مسلم نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں :
’’میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:
((إن ہذا الأمر لا ینقضی حتی یمضی فیہم اثنا عشر خلیفۃ ؛ قال: ثم تکلم بکلام خفي عليَّ، قال: فقلت لأبي: ما قال ؟ قال: کلہم من قریش۔))[2]
’’یہ خلافت تمام نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمانوں میں بارہ خلیفہ نہ ہولیں۔ پھر آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا، میں نے اپنے باپ سے پوچھا: آنحضرت نے کیا فرمایا؟ (کہا) فرمایا: ’’یہ سب قریش میں ہوں گے۔ ‘‘
اس حدیث کا رافضہ اقرار بھی کرتے ہیں اور اسے اپنی کتابوں میں روایت بھی کرتے ہیں۔[3]
ردّ کی وجوہات:
اس حدیث میں رافضہ پر رد کی دو وجوہات ہیں :
پہلی وجہ:… یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے۔اوران میں سے
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/ ۱۶۷۔