کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 180
بالکل اسی طرح رافضیوں میں آل ِ حسین سے امامت کا منقطع ہوجانا بلکہ نہ ہی حضرت حسین اور نہ ہی ان کی اولاد میں سے کوئی کسی ایک دن کے لیے بھی مسلمانو ں کا امیر یا امام بنا۔ یہ ان دلائل میں سے ایک ہے جو یہودیوں اور رافضیوں کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ و افتراء باندھنے پر دلالت کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ بادشاہی آل ِ داؤد میں اور امامت آل ِ حسین میں ہی رہے گی۔اس لیے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے کوئی ایسا وعدہ کیا ہوتا تووہ ضرور اسے پورا کرتا۔ اللہ کبھی اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الروم:۶) ’’(یہ) اللہ کا وعدہ (ہے) اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ پنجم… امامیہ رافضی ائمہ کی تعداد بارہ میں محدود ہونے پر بنی اسرائیل کے گروہ سے استدلال کرتے ہیں۔ اردبلی کہتا ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے : ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَبَعَثْنَا مِنہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ﴾ (المائدہ: ۱۲) ’’ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور اُن میں ہم نے بارہ سردار مقرر کیے۔‘‘ اس حکم کے مطابق قائمین کی تعداد بارہ مقرر ہوئی۔ اور اس امت میں بھی قائمین کی تعداد بارہ ہوگی۔ ‘‘ مذکورہ بالا اس عقیدہ میں رافضیوں اور یہودیوں میں مشابہت کی جو وجوہات میں نے ذکر کی ہیں۔ ان میں سے بعض کا استنباط میں نے فریقین کی نصوص کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کیا ہے۔ اور بعض کے متعلق رافضیوں نے خود صراحتاً کہا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں یہودیوں کی اقتدا واتباع کررہے ہیں۔ ایک طرف وہ خود اعلانیہ اس بات کی صراحت کرتے ہیں ؛جبکہ دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے عین مطابق ہیں : (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔))[1] ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔ ‘‘ اگر ایسا نہ ہو تو یہودی اسفار سے مشابہت کے کون سے معانی باقی رہ جاتے ہیں۔ اور جسے یہودی تحریف، تغیر اور تبدیل کی وجہ سے دوسروں سے پہلے جانتے ہیں۔ اور پھر ان کا نصوص ِ قرآن سے روگردانی کرنا، جن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ؛ جس کو دوست اور دشمن سبھی جانتے ہیں ؛ کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ؛ تو ان کی اس حرکت کے کیا معانی ہیں سوائے اس کے کہ وہ خود کو یہودی دین کی طرف منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دین سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔