کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 18
عقیدہ تو رکھتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رجوع کا عقیدہ نہیں رکھتا۔ ابن سبا اسی مقصد کے لیے مسلمانوں کے شہروں میں گھومتا رہا تاکہ وہ لوگوں میں اپنے افکاراور گمراہیوں کو پھیلائے۔ اور جن لوگوں کو اس نے اپنی تاویلات سے گمراہ کر لیا تھا ان سے خط و کتابت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کا فتنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مسلح انقلاب کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا، اس فتنے کی چنگاریاں تین شہروں سے بھڑکیں : مصر، کوفہ، اور بصرہ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس سرکش ؛باغی اور ظالم گروہ کے ہاتھوں انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیے گئے۔ اس کے بعد کہ امور خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہوگئے؛ اور مسلمانوں نے اپنے چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے ان کی بیعت کرلی ؛ تو عبد اللہ بن سبا اپنے پیروکاروں کو، اور جو اس کی دعوت سے دھوکا کھا بیٹھے تھے، کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی دعوت دینی شروع کردی۔ اس کا گمان یہ تھا کہ یہ ولایت اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ان کے دشمنوں سے براء ت کا اظہار نہ کرلیا جائے۔ اوریہ دشمن اس کی نظر میں سابقہ خلفاء راشدین تھے۔سو ابن سبا بد بخت ملعون وہ پہلا شخص تھا جس نے اسلام میں ابو بکر و عمر و عثمان اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے براء ت کا اظہار کیا جیساکہ بڑے بڑے پرانے رافضی علماء جیسے اشعری، قمی،کشی، نو بختی اور متاخرین میں سے مامقانی نے بالنص کہا ہے۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ نص نقل کی ہے : ’’ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے حکایت نقل کی ہے کہ : بے شک عبد اللہ بن سبا یہودی تھا؛ اس نے اسلام کا اظہار کیا، اور حضرت علی سے ولایت کا عقیدہ رچایا۔ جب وہ یہودی تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون کے وصی ہونے کا کہتا تھا اور اپنے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسی طرح کی بات کہنے لگا۔ یہ سب سے پہلا انسان تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا قول مشہور کیا۔ اور ان کے دشمنوں سے براء ت کا اظہار کیا، اور آپ کے مخالفین کا پول کھولا۔ اس لیے شیعہ کے مخالفین یہ بات کہتے ہیں کہ :’’ رافضیت کی اصل یہودیت سے نکلتی ہے۔ ‘‘[1] اس طرح ابن سبااپنے متبعین میں پھیلائے ہوئے عقیدۂ وصیت، رجعت، صحابہ سے براء ت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں کی شان میں غلو کی وجہ سے ایک ایسے فرقہ کی جڑیں گاڑنے میں کامیاب ہوگیا جس کے مبادیات اور افکار اسلامی لباس میں یہودیت سے نکلتے تھے۔ پھر اس فرقہ کو اسی بد بخت کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’’سبئیہ ‘‘ کہا گیا۔
[1] المقالات والفرق ص ۲۱؛ رجال الکشيص۷۱؛ وفرق الشیعۃ ص ۲۲؛ وتنقیح المقال ۲/۱۸۴۔