کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 178
’’ بے شک ہم میں اسلحہ کی مثال بنی اسرائیل میں تابوت کی مانند ہے۔ جہاں بھی تابوت چلا جاتا، شاہی اس کے پاس ہوتی۔ سو ہم میں بھی جہاں تلوار جائے گی، اس کے ساتھ ہی علم بھی جائے گا۔‘‘[1]
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں امامت کو محدود کرنے کے لیے رافضیوں کایہ عقیدہ ہے۔ اور اس عقیدہ سے متعلق بعض دوسرے پہلوبھی ہیں، جس پر ان لوگوں کی ثقہ اور قابل اعتماد کتابیں دلالت کرتی ہیں۔ اس عقیدہ کے کئی ایک پہلوؤں میں رافضیوں کا یہودیوں سے متاثر ہونا بھی ظاہر ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے خود بھی اپنے اس عقیدہ میں یہودیوں سے مشابہت ظاہر کرتے ہوئے کوئی شرم و حیاء محسوس نہیں کی۔ بلکہ الٹا وہ اپنے ان عقائد میں کتاب و سنت کو چھوڑ کر یہودیوں کی موافقت سے استدلال کرنے لگے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یافتہ راہ کو چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ دبے ہوئے الفاظ میں کھلم کھلا اسلام سے براء ت اور یہودیوں سے موافقت کا اظہار کررہے ہیں۔
تیسری بحث :… یہود و روافض میں بادشاہی اور امامت کی ایک مخصوص طائفہ میں
محدود کرنے میں مشابہت
اس کے بعد کہ یہودیوں کا نظریۂ بادشاہی، اور بادشاہوں کیلئے ان کی یہ شرط کہ داؤد علیہ السلام ہی کی نسل سے ہو اور یہ کہ قیامت تک بادشاہی آل ِ داؤد سے باہرنہ جائے؛ یہ ان کے اس گمان کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت تک ان کی اولاد ہی بنی اسرائیل کے عرش پر رہے گی ؛ یہ تمام امور بیان ہوچکے۔
علاوہ ازیں رافضیوں کا نظریۂ امامت بھی بیان ہوچکا؛ اوریہ کہ ان کااعتقاد یہ بھی ہے کہ امامت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہی رہے گی، قیامت تک ان سے باہر نہیں جائے گی۔ اس کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ان دونوں عقیدوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے۔
حقیقت میں رافضیوں کا اس عقیدہ میں یہودیوں سے متاثر ہونا؛ اوراپنے ائمہ کے متعلق بعض وہ شرائط لگانا -[ جو یہود نے اپنے بادشاہوں کی متعلق لگائی ہیں بہت ہی واضح ہے اور کسی تقابل کا محتاج نہیں، اس لیے کہ رافضی] خود تسلیم کرتے ہیں کہ[ یہ یہودی عقائد کی طرح ہیں ] ؛ جیساکہ سابقہ نصوص میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
ان دونوں فریقوں کے درمیان مشابہت کو مندرجہ ذیل نقاط میں بیان کیا جاسکتا ہے :
اول …یہودی ملک [بادشاہی] کو داؤد علیہ السلام کی اولاد میں محدود کرتے ہیں، اور یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ قیامت تک ان کے علاوہ کسی دوسرے کو[بنی اسرائیل کی ]بادشاہی نہیں مل سکتی۔ ان کے اسفار میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے :
’’ اس لیے کہ رب نے ایسے ہی کہا ہے کہ داؤد علیہ السلام کے لیے یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوگا کہ کوئی دوسرا انسان
[1] کمال الدین و تمام المنۃ ص ۳۱۶۔ المجلسی : بحار الأنوار ۲۵/ ۲۴۹۔
[2] اصحاح ۲۸؛ فقرہ ۱۔
[3] أصول الکافي ۱/ ۲۳۸۔