کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 177
اس سے محروم سمجھتے ہیں۔ ‘‘ صدوق نے ہشام بن سالم سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے : ’’میں نے جعفر الصادق بن محمد علیہما السلام سے کہا : ’’ کیا حسن افضل ہیں یاحسین ( رضی اللہ عنہما ) تو کہنے لگے: حسن حسین سے افضل ہیں۔ کہتا ہے : پھر میں نے کہا : ’’ تو پھرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد حسن رضی اللہ عنہ کی اولا د کو چھوڑ کر امامت حسین کی اولاد میں کیونکر ہوئی ؟ تو انہوں نے کہا : ’’ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند آئی کہ حضرت ہارون اور موسیٰ علیہ السلام کی سنت کو حسن اور حسین میں جاری کریں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون علیہما السلام) نبوت میں شریک تھے؛ جیسے کہ حسن اور حسین امامت میں شریک ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کو ہارون علیہ السلام کی اولاد میں کردیا، موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں نہیں۔ اگرچہ موسیٰ ہارون علیہما السلام سے افضل ہی تھے۔‘‘[1] شیعہ لوگ بنی اسرائیل کی مشابہت سے اپنے عقیدہ پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ اوراپنی طرف سے روایات گھڑ لیتے ہیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں نصوصِ تورات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے کاہنوں کو اولاد ِ ہارون میں سے ہی پیدا کیاتھا، نہ کہ موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں سے۔ سفرخروج میں ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے یہ کہتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کیا : ’’ اور اپنے بھائی ہارون اور اس کے بیٹوں کو سارے بنی اسرائیل میں سے اپنے قریب کر ؛ تاکہ وہ میرے لیے کہانت کا کام کریں۔‘‘[2] رافضی اپنے ائمہ کی امامت کے درست ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ اٹھانے سے بھی استدلال کرتے ہیں۔سوان میں سے جس نے ہتھیار اٹھائے وہ امام قرار پایا۔ اس میں بھی وہ یہود سے مشابہت رکھتے ہیں ؛ جو اپنے بادشاہوں کے لیے شرط لگاتے ہیں کہ وہ تابوت کو اٹھائے رہیں، انہوں نے بھی اسی چیز کا اقرار کیا۔ کلینی نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے، بے شک ان کا کہنا ہے : ’’ہم میں اسلحہ اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے بنی اسرائیل میں تابو ت اٹھانا ہے۔ سوبنی اسرائیل میں جس گھر کے دروازے پر تابوت پایا جاتا ؛ انہیں نبوت دی جاتی۔ سو ہم میں جس کے پاس اسلحہ چلا گیا اسے امامت سے نوازا گیا۔ ‘‘[3] ابو عبد اللہ ہی سے روایت کیا گیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں :
[1] الکلینی ۱/۲۸۸۔ والصدوق : علل الشرائع ص ۲۰۷؛ والمجلسي : بحار الأنوار ۲۵/۲۵۶۔ [2] أوائل المقالات ص: ۴۴۔ یہاں پر دوسرے فرقوں سے مصنف کا اشارہ خوارج ‘ زیدیہ ‘ مرجیہ اور اصحاب الحدیث کی طرف ہے۔ مصنف نے انہیں امامت کا ذکر کرتے ہوئے شروع میں بیان کیا ہے ‘ اور امامیہ فرقہ سے ان کی مخالفت بھی ذکر کی ہے۔ دیکھو : اوائل المقالات ص ۴۳۔