کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 175
اس طرح یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کے ائمہ کی امامت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ارشادات موجود ہیں ؛اور پھر ان میں سے ہر امام نے اپنے بعد آنے والے کے لیے امامت کا حکم دیا ہے۔ ایک معاصر شیعہ عالم محمد رضا المظفر کہتا ہے: ’’ہم اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ بارہ ائمہ جن کے لیے امامت کی سچی صفات ہیں، وہ منصوص علیہ احکام شریعت میں ہمارا مرجع ہیں۔ یہ تمام اپنے ناموں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوص ہیں۔ پھر ان میں ہرآنے والے سے پہلے آنے والے کے لیے بھی آنے والی ترتیب کے مطابق نص ثابت ہے۔‘‘ [1] [ پھر اس کے بعد مذکورہ بالا ترتیب کو ذکر کیا ] رہا ان کا یہ اعتقاد کہ امامت حضرت ِ حسین کی اولاد میں ہی محدود رہے گی، اور قیامت تک ان سے باہر نہیں جائے گی؛ ا س کے لیے بھی ان کے ہاں ائمہ معصومین کی طرف منسوب روایات ہیں ؛ اور ان کے مشہور علماء کے اقوال بھی ہیں ؛ جو ان کے اہم مصادر و مراجع میں وارد ہوئے ہیں ؛ جنہیں ان کے ہاں معتبر سمجھا جاتا ہے۔ کتاب علل الشرائع اور دوسری کتابوں میں آیا ہے : ’’ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے ساتھ اور جو کچھ آپ کو ملے گا( کے ساتھ) خاص کیاہے۔ اور پھر حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اسی پر باقی رکھا۔ پھر ان کے بعد وصیت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے ہے جن سے یہ حسین رضی اللہ عنہ کو ملی ؛ جب یہ معاملہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا تواپنے سابقین کی طرح اس میں کوئی جھگڑا کرنے والا نہیں تھا، پھر اس کے حقدار علی بن حسین رضی اللہ عنہ بنے ؛اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿وَأُوْلُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ ﴾ (الاحزاب: ۶) ’ اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رُو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ حضرت علی بن حسین کے بعد یہ امامت صرف ان کی اولاد میں ہی ہوگی ؛ اور پھر ان کی اولاد میں۔‘‘[2] الکافی اور دوسری کتابوں میں عبد الرحیم بن روح القصیرسے روایت ہے،وہ ابو جعفر سے روایت کرتے ہیں ؛ انہوں نے کہا : میں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق ان سے پوچھا : ﴿اَلنَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُوْلُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ ﴾ (الاحزاب :۶)
[1] کشف الغمۃ : ۱/ ۵۴-۵۵۔ [2] کشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ : ۲/ ۵۰۹۔