کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 172
تعمیر کریں گے۔ اور میں ان کی بادشاہی کی کرسی ہمیشہ کے لیے قائم رکھوں گا۔‘‘[1] اس ہیکل کو تعمیر کرنے کا مقصد یہاں پرتابوت[تابوت موسوی] کو حفاظت سے رکھنا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ جب سلیمان علیہ السلام کے دور میں ہیکل کی تعمیر مکمل ہوچکی تو سلیمان علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے شیوخ کو جمع کیا ؛ اور انہوں نے تابوت کو ہیکل میں (اس کیلئے تیار کردہ محراب میں رکھا)۔ [اس کے متعلق یہودی اسفار میں یوں آیا ہے ]: ’’ اس وقت سلیمان علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے مشائخ کو جمع کیا؛ ہر نسل کے سردار، اور ان کے آباء کے سرداربنی اسرائیل میں سے؛ ملک سلیمان میں یر و شلم میں تاکہ وہ رب کے عہد کے مطابق داؤد کے شہر سے تابوت کو لے کر چڑھیں۔کاہنوں نے عہد ِ رب کے تابوت کو اس کی جگہ پر بیت (المقدس کے ) محراب میں قدس الاقداس میں رکھا۔ ‘‘[2] یہودیوں کے ہاں اس عظیم تابوت کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ کسی بھی جنگ میں جب وہ اپنے ساتھ اس تابوت کو اٹھاتے ہیں تو ان کے سامنے سے ان کے دشمن بھاگ جاتے ہیں، اور فتح و نصرت ان کا مقدر ہوتی ہے۔[3] جب یہودیوں کے دلوں میں اس تابوت کی یہ عظمت تھی اوران کے دشمنوں کے ساتھ جنگوں میں اس کی یہ (مزعوم ) تاثیر تھی ؛ اس لیے یہود نے یہ واجب کر دیا کہ جو بنی اسرائیل کے عرش پر متمکن ہوگا وہ اس تابوت کو اپنے ساتھ رکھے تاکہ وہ اس کی وجہ سے اپنے دشمنوں پر فتح پاس کے۔ دوسری بحث :… رافضہ کا امامت آل حسین رضی اللہ عنہ میں محدود و محصور کرنا رافضہ [امامیہ شیعہ] اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد جناب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے امامت کی وصیت کی تھی جو پھر بعد میں ان کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ میں منتقل ہوگئی۔ پھر حسن کے بعد حسین ( رضی اللہ عنہما ) کے حصہ میں آئی۔ پھر حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ مہدی منتظر پر آکر ختم ہوگئی ؛ جسے ان کے ہاں بارہواں امام تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں ائمہ کی تعداد بارہ ہے۔وہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ائمہ کی امامت کے بارے میں کھل کر وضاحت کے ساتھ کہا ہے؛[یعنی امامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص کے ساتھ ثابت ہے]۔ پھر ان میں سے ہر ایک امام اپنے بعد آنے والے کے لیے وصیت کرتا رہا ہے۔ وہ اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے
[1] پرو ٹوکول ۲۴ ص ۲۱۰۔ [2] الماسونیہ العراء ‘ محمد علی الزغبی ص ۶۷۔ [3] قصۃ الحضارۃ ۲/ ۳۳۸۔