کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 171
تربیت کریں گے۔ یہ وہ ہیں جنہیں حق ِ وراثت سے منتخب نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہ اپنے خاص مواہب [ صلاحیتوں ] کی وجہ سے (اس منزل تک پہنچے ہیں )۔‘‘ [1]
یہودی اس داؤدی بادشاہی کے لیے شرط یہ رکھتے ہیں کہ وہ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کرے۔ اور تابوت کو (اپنے ساتھ ) اٹھالائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے ایک بہت بڑیاورانتہائی خطرناک تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ جس نے عجیب تاریخ رقم کی ہے۔ جو پوری راز داری سے کام کرتی ہے تاکہ دنیا کی بادشاہوں کو ختم کرے۔ اورہیکل ِ سلیمان کی تعمیر ( کے لیے کام کرے)۔ حتی کہ انہوں نے اس تنظیم کے لیے نام بھی ایسا ہی اختیار کیا ہے جو اپنے ہدف کو ظاہر کرتا ہے ؛ انہوں نے اس کا نام : ’’جمیعۃ البنائین الأحرار۔‘‘ (فری میسنز )۔رکھا ہے۔
اسے ماسونیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[2]
یہودی اس با ت کا بھی اعتقادرکھتے ہیں کہ بے شک ان کی حکومت کے قائم ہونے اور اس کے باقی رہنے میں ہیکل کی تعمیر کا بہت بڑا اثر ہے۔ ول ڈیو رانٹ کہتا ہے :
’’ اس یہودی جنگ میں ہیکل کی تعمیر کو اہم واقعہ سمجھا جا رہا ہے، یہ صرف ان کی محبت کا گھر ہی نہیں ہے کہ کافی ہو ؛ بلکہ وہ یہودیوں کا ایک روحانی مرکز بھی ہے۔ اور ان کے ملک کا دارالحکومت بھی ان کی وراثت کے منتقل ہونے کا وسیلہ بھی۔ اوران کی ایسی یادگار ہے، جوزمین کی پیٹھ پر ان کے اس لمبے عرصے کی در بدری کو ان کے سامنے پیش کرتی ہے۔ یقیناً اس ہیکل کی زمین پر یہودی دین کی رفعت میں ایک شان تھی (جو ان ادیا ن میں سے علیحدہ ہوکر نکلا تھا ) جو متعدد معبودوں پر یقین رکھتے تھے؛ راسخ عقیدہ والا نرم مزاج دین۔‘‘ [3]
اس بنا پر یہودی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے مزعوم بادشاہ کا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرے۔
اس عقیدہ کی جڑیں یہودی اسفار میں ملتی ہیں۔ان اسفار میں ہے کہ : ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام پر شرط رکھی تھی کہ ان کی نسل ہیکل بنانے کی ذمہ داری نبھائے گی۔ تاکہ انہیں بنی اسرائیل کے عرش پر ابد تک کے لیے قائم رکھا جائے۔ ‘‘
سفر صموئیل دوم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام سے ان الفاظ میں خطاب کیا :
’’جب تو اپنے دن پورے کر لے، اور اپنے آباء کے ساتھ لیٹ جائے، میں تیرے بعد تیری نسل کو اس جگہ کھڑا کروں گا جو تیری اولاد سے آئے گی۔ اور میں ان کے ملک کو ثابت رکھوں گا، وہ میرے نا م کا گھر
[1] المزمور ‘۸۹؛ فقرات ۲۰- ۳۶۔
[2] پرو ٹوکول ۲۴ ص ۲۱۰۔