کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 17
سیل رواں کے سامنے ٹک سکیں۔ انہوں نے اسلام پر دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اپنے ملکوں اور مذاہب سے مدد لی۔مگر ان معرکہ خیز جنگوں کے بعد بہت جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ ان میں اس بات کی طاقت نہیں ہے کہ وہ تیر و تلوار سے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرسکیں۔ سو انہوں نے اسلام کے خلاف جنگ کے لیے ایک نئی چال چلی۔ وہ چال مکر اور دھوکا بازی؛ اور مسلمانوں کی صفوں میں فتنہ پیدا کرنے کی تھی۔ اس موقع پر اسلام کے خلاف ان کی مکاریاں، اور سازشیں بہت ہی بڑھ گئیں۔ہر گروہ نے اپنی خباثت اور مکر کے مطابق عمل کیا۔ مجوسی حاسدین نے ابو لؤلؤ مجوسی ملعون کو کھڑا کیا تاکہ وہ اسلام کے خلاف پہلی سازش کو عملی جامہ پہنائے ؛ جس کے نتیجہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی۔ جب اس بد بخت معلون ابو لؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زہر آلود خنجر سے زخمی کردیا او پھر نتیجۃً حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ آپ کے بعد امور خلافت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئے۔ آپ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ بنے، آپ بھی مسلمانوں کے معاملات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نبھاتے رہے۔ اور لوگ ایک زمانہ تک انہی نعمتوں سے مالا مال ہوتے رہے جو آپ سے پہلے شیخین کے عہد مبارک میں عدل و انصاف، امن و امان اور ذہنی سکون و سلامتی کی صورت میں میسر تھیں۔ یہاں تک کہ یہود نے اپنے یہودی اسلاف بنی نضیر، بنی قریظہ، بنی قینقاع، اور اہل خیبر کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔کہ ایک ایسا فتنہ پیدا کردیں جس سے مسلمانوں کی وحدت کا پارہ پارہ کردیں اور ان کے عقیدہ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیں۔ چنانچہ مکار عبد اللہ بن سبا یہودی اس خبیث مہم کو سر انجام دینے کے لیے یہودیت کی جانب سے نامزد کیا گیا، کیونکہ یہودیت اس خبیث انسان کی چالاکیوں، مکاریوں اور دھوکا بازیوں سے اچھی طرح واقف تھی۔ اس کا مکر و خبث وہ دو عظیم بد بختی کی صفات تھیں جنہوں نے اسے اسلامی حکومت کے گڑھ میں ایک بڑا فتنہ برپا کرنے کے قابل بنادیا تھا۔ یہ بد بخت یہودی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی شہروں میں گھومنے لگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اظہار کرتا اور لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے نامزدعمال (گورنروں )کے خلاف ابھارتا۔ مسلمان عوام میں اپنے افکار اور یہودی مبادیات پھیلاتا۔ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا قول ایجاد کیا۔اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے خلیفہ اور آپ کے وصی ہیں۔ اور یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان سے پہلے دونوں خلفاء نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ حق غصب کرلیا تھا۔تو یہ لازم ہے کہ اہل حق کو ان کا حق لوٹایا جائے۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رجعت کا قول گھڑا اور کہنے لگا : ’’ بہت ہی تعجب کی بات ہے اس آدمی کے لیے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رجوع کا