کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 168
ان میں کوئی جو بھی نبی آیا یا تو وہ قتل کیا گیا، یا پھر وہ قوم کو چھوڑ کر چلا گیا، یا اسے ڈرایا اور خوف زدہ کیا گیا۔‘‘[1]
ان کی زندگی میں یہ اللہ کی سنت رہی کہ ان سے یہ نعمتیں زائل ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے امن کو خوف سے اور عزت کو ذلت سے بدل دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُونَ﴾ (النحل:۱۱۲)
’’ اور اللہ ا یک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا۔‘‘
یہودی اپنے اسی حال پر کفر اور عنادمیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پربابل کے بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا۔ اس نے قدس شہر کو تباہ کردیا ؛ اور ہیکل کو مٹا ڈالا؛ اور یہاں کے اکثر باشندوں کو غلام بنالیا ؛ ایک مدت تک یہودی بابلی بادشاہ کی غلامی میں رہے یہاں تک کہ ایک فارسی بادشاہ نے انہیں واپس بیت المقدس جانے کی اجازت دی۔[2]
جب یہود نے فلسطین میں استقرار حاصل کر لیا تو سلیمان اور داؤد علیہما السلام کے دور حکومت کے اپنے سنہرے زمانے کے خواب دیکھنے لگے ؛ کہ جن ناز و نعمتوں وہ پل رہے تھے؛ اور انہیں جو عزت اور قوت حاصل تھی۔ پھریہ لوگ گمان کرنے لگے کہ یہ سب کچھ حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی وجہ سے تھا۔ اس وجہ سے وہ یہ کہنے لگے کہ بادشاہی آل داؤد میں ہی رہے گی جو کہ ان کی عزت اور بزرگی انہیں واپس دلائے گا۔ سو یہی وہ زمانہ ہے جس میں یہودی اسفار کی تدوین کی گئی۔ جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف یہ بات منسوب کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ :’’ بنو اسرائیل کے عرش پر آل داؤد میں سے ایک آدمی ابد تک کے لیے رہے گا۔ ایسا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی خوابوں کو شرعی رنگ میں رنگ دیں تاکہ انہیں عزت و احترام اور پذیرائی حاصل ہو۔ اس طرح ان کے ہاں اس عقیدہ کی ابتدا ہوئی کہ :’’ شاہی ہمیشہ ہمیشہ آل داؤد علیہ السلام میں رہے گی۔ پھر ان روایات کو یہودی آج کے دن تک نقل کرتے چلے آرہے ہیں ؛ اور اس بات کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا جائے، اور بنی اسرائیل کے عرش پر آل ِ داؤد میں سے کوئی آدمی متمکن ہو۔
اب کچھ وہ نصوص ذکر کی جارہی ہیں جنہیں یہودیوں نے اپنے اسفار میں ذکر کیا ہے، اور ان میں اس عقیدہ کی طرف دعوت ہے :
[1] صموئیل اول : اصحاح : ۱۷۔
[2] الفصل : ۱/ ۲۹۱-۲۹۴۔