کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 167
اس فلسطینی سے جنگ کرو۔ آپ ابھی بالکل نوجوان ہیں۔ اور وہ بچپن سے منجھا ہوا جنگجو ہے۔ اور جب فلسطینی کھڑا ہوگیا، اور داؤد سے ملاقات کے لیے آگے بڑھا تو داؤد نے جلدی کی، اور اچھل کر فلسطینی کی طرف بڑھے۔داؤد نے اپنا ہاتھ اس کے (تیروں والے ) تھیلے کی طرف بڑھا یا اور اس سے ایک پتھر نکالا۔پھر غلیل سے اس کے ماتھے میں دے مارا؛ وہ پتھر فلسطینی کے ماتھے میں گھس گیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا؛ داؤد علیہ السلام فلسطینی سے پتھر اور تیردان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے فلسطینی کو مارا اور قتل کردیا۔‘‘[1]
پھر اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام مشہور ہوگئے۔اور بنی اسرائیل نے آپ کی منزلت اور فضیلت کو پہچان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم اورحکمت عطا کیے۔ ان کے دور میں بنی اسرائیل نے عیش و آرام کی پرسکون اور امن و استقرار والی زندگی گزاری۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ أَوِّبِیْ مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَo أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o﴾ (سباء:۱۰۔۱۱)
’’ اورہم نے داؤد کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی اے پہاڑو! ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو (اُن کا مسخر کر دیا)اور اُن کے لیے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا۔ کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑو اور نیک عمل کرو، جو عمل تم کرتے ہو میں اُن کو دیکھنے والا ہوں۔‘‘[2]
جب داؤد علیہ السلام کا انتقا ل ہوا توانہوں نے اپنے پیچھے اپنے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو چھوڑا۔ سلیمان علیہ السلام کی حکومت کا عرصہ داؤد علیہ السلام کی حکومت کا تسلسل تھا اوریہ حکومت ایک لمبا زمانہ قائم رہی۔ سلیمان علیہ السلام بھی اپنے والد داؤد علیہ السلا م کی طرح صفات ِ ایمانیہ سے متصف تھے۔ انہوں نے اپنی تمام حکومت کو ان صفات سے آراستہ کیا، جن سے ان کے والد کی حکومت جانی جاتی تھی، جیسے کہ عدل و انصاف ؛ استقرار و ترقی۔ ان کے دور میں بھی بنی اسرائیل ایسے ہی نعمتوں سے مالا مال رہے جیسے ان کے والد کے دور میں اللہ کی پھیلی ہوئی نعمتوں میں تھے۔جب سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوگیا تو بنی اسرائیل اپنے کفر کی وجہ سے پیچھے چلے گئے۔اور ایک لمبازمانہ اسی کفراور بت پرستی پر گزارا۔ ابن حزم نے لکھا ہے کہ : ’’ مملکت یہوذا‘‘ کے بسنے والے اکثرکافر تھے۔
باقی دس گروہوں کے بادشاہ سارے کے سارے کافر اور بت پرست تھے۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’ باقی دس گروہ ؛ان میں کوئی ایک بھی؛ یا اس سے زیادہ مؤمن نہیں تھابلکہ سارے کے سارے اعلانیہ بت پرستی کرنے والے تھے۔وہ انبیاء کو دھمکیاں دینے والے اور بیت المقدس کی راہ میں رکاوٹ تھے۔