کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 164
عمل کرنے والے اور احادیث و آثار اور سنن کے جاننے والے علماء کرام خوب جانتے ہیں۔ اور ان کے ہاں یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے۔‘‘[1]
ان دلائل کی روشنی میں روافض کے دعویٔ وصیت پر رد مکمل ہوگیا جب کہ یہود کے یشوع بن نون کے وصیٔ موسیٰ علیہ السلام ہونے پررد کومیں نے ذکر نہیں کیا۔اس کی کئی وجوہات ہیں :
اوّل :… ہمارے پاس اس بات کے لیے سر ِ دست کافی وسائل نہیں ہیں جن سے اس مسئلہ کی نفی کی جائے، یا اسے ثابت کیا جائے، اور وہ تمام کچھ جو محققین نے لکھا ہے وہ یہودی اسفار سے اخذ کیا جا سکے۔
دوم:… موسیٰ علیہ السلام کا یشوع کے لیے وصیت کرنا شرعاً ناجائز نہیں ہے۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے۔ لیکن مسئلہ اس کے ثابت ہونے کا ہے۔
سوم :… یشوع بن نون کے موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہونے سے عقیدہ میں وہ فساد نہیں آتا، جو رافضی عقیدہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہونے کے عقیدہ سے لازم آتا ہے۔
اس وجہ سے میں نے یہود پر رد کرنے سے (عمداً) رو گردانی کی ہے۔ واللہ اعلم!
****
[1] صحیح مسلم ‘ کتاب الفضائل ‘ باب : من فضائل ابی بکر الصدیق ح: ۹۔
[2] صحیح البخاری کتاب الأحکام ‘ باب : الاستخلاف ‘ح: ۷۲۲۰۔و مسلم ‘ کتاب الفضائل ‘ باب : من فضائل ابی بکر الصدیق ح: ۱۰۔