کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 162
سو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی بات درست ہے۔ اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مناسب بھی ہے۔ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ (تینوں خلفاء رضی اللہ عنہم ) کی شان میں طعن وغیرہ کی وہ باتیں بھی لازم نہیں آتیں جو دوسری باتیں مان لینے کی صورت میں لازم آتی ہیں۔
سوم : خلافت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نصوص :
(سابقہ معاملہ کے برعکس) کئی دلائل ایسے ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی طرف رہنمائی کی ہے۔
بہت سی صحیح احادیث ایسی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے بعد خلیفہ ابو بکر صدیق ہوں گے ( رضی اللہ عنہ )۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ فرماتی ہیں :
’’ہائے( تکلیف سے)میرا سر پھٹنے لگا؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ایسا ہوگیا اور میں زندہ ہوا تو تمہارے لیے استغفار کروں گا اور بخشش کی دعا مانگوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے افسوس ! میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری موت چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو آپ دن کے آخر میں (یعنی بہت جلدی ہی) دوسری شادی کرلیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ میں اپنے سر کی شکایت کررہا ہوں ؛میں نے یہ خیال کیا تھا (یاارادہ کیا تھا ) کہ میں ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلا بھیجوں ؛ان کے (خلیفہ بنانے کے)لیے عہد لے لوں، تاکہ کوئی کہنے والا، یا تمنا کرنے والا اس کی تمنا نہ کرے۔ پھر میں نے کہا : اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہونے دیں گے، اور مومنین بھی اس کا دفاع کریں گے ؛ یا مومنین ایسے نہیں ہونے دیں گے، اور اللہ تعالیٰ اس کا دفاع کریں گے۔‘‘[1]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں فرمایا:
’’ابو بکر اور اس کے بیٹے کو میرے پاس بلاؤ، تاکہ میں تحریر لکھ دوں، میں اس بات کا اندیشہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے، یا کہنے والا کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں۔ اللہ اور مؤمنین ابو بکر کے علاوہ سب کا انکار کرتے ہیں۔‘‘[2]
ابو ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ’’میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ سے پوچھا گیا تھا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو خلیفہ بناتے، تو وہ کون ہوتا ؟ تو (اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا:
[1] رواہ الامام احمد فی المسند (۳/ ۱۹۲)‘ قال ابن حجر : اسنادہ جید۔