کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 161
اس انتہائی سخت مشکل وقت میں، اور پر آشوب لمحہ میں جب کہ ہر طرف سے غصہ اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا ؛ جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے حجت پیش کی ؛ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( اَلْاَئِمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ۔)) [1]
’’ حکمران قریش میں سے ہوں گے۔ ‘‘
اس وقت سانسیں ٹھہر گئیں۔ اورتمام لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے سر جھکا لیا۔ اور سب نے کہا : ہم نے سن لیا اور مان لیا۔ اورتمام لوگوں نے جناب ِ حضرت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے یہ عظیم موقف سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جو سنت و نصوص کے لیے ان کے احترام؛ نصوص کے ساتھ تمسک پر ؛ اور نصوص کے سامنے رائے کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
ان میں رافضہ پر بہت بڑا اور کھلا ہوا رد ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر نصوص چھپانے اور ان کی مخالفت کرنے کا الزام دھرتے ہیں۔
اور عقلی دلائل میں سے جو علی رضی اللہ عنہ کے عدم ِ وصی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، یہ بھی ہے کہ :
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنا، اور پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے مقررکردہ شوریٰ میں شریک ہونا ؛ جس کے نتیجہ میں حضرت رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، اور پھر آپ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنا۔ ‘‘
یہ موقف دو باتوں سے خالی نہیں :
اول:… یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی نص نہیں پائی جاتی جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی وصیت ہو۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی بیعت کی جو اس امر کے ان سے زیادہ حق دار تھے؛ اور جن کی بیعت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوگیا تھا۔
دوم : یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر ہونے کی وصیت کی ہو؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو نہ مانا، اور جاکر دوسروں کی بیعت کرلی۔
اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں طعن لازم آتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کریں ؛ لیکن وہ اسے نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔ اس سے سابقہ تین خلفاء پر بھی طعن لازم آتا ہے کہ انہوں نے کیسے وہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا، وہ جس کے اہل نہ تھے؛ اور ( اس طرح ) انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی۔
[1] دیکھو: ابن ہشام : السیرۃ ۴/ ۱۵۱۳۔
[2] مقالات الاسلامیین : ابو الحسن الاشعری (۱/ ۴۱)۔