کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 16
ہاں ! سیّدناابو بکر رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت کی زمام کار سنبھالنے کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔
اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ پر اجماع ہوگیا اورکوئی وجہ باقی نہ رہی کہ وہ آپ کے بارے میں اختلاف کرتے۔ سو انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کی؛ اور آپ رضی اللہ عنہ کواپنی مکمل رضا مندی سے اپنا امام اور قائد بنالیا۔ اور آپ کے ارد گرد مدد گاروں اور ناصرین کی صورت میں جمع ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ ان کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر گامزن ہوئے ؛ انہیں قریب کیا اوران کی اصلاح کی۔سنت پر چلتے رہے، کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ سنت پر چلنے والے تھے۔ اس لیے جب ارتداد کا فتنہ پیدا ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بہت سختی سے اس کا انکار کیا اور لشکر منظم کیے ؛ اور مرتدین کے قتال کا حکم دیا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے بارے میں آپ سے بات چیت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’ اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ سے ایک رسی بھی روکیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ادا کیا کرتے تھے، تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے قتال کروں گا۔ ‘‘[1]
خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں اس فتنہ کا قلع قمع کیا؛ اور اس شرکی آگ کو بجھا دیا۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی رعیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق چلتے رہے۔آپ کے دور میں لوگ عیش و راحت کی زندگی بسر کرتے رہے۔ لوگ بھی آپ سے ٹوٹ کر محبت کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے پاس بلالیا، اور وہ بھی ان سے راضی تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت کی وصیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے کی تھی۔ اس بارے میں آپ نے ایک تحریر لکھی تھی جس میں انہوں نے اپنے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کے لیے مسلمانوں کو وصیت کی تھی۔
آپ کے بعد لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہوگئے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلیفہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کی بیعت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے سابقین کی راہ پر چلتے ہوئے ہدایت و بھلائی کا یہ سفر جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا ؛ اور امت کے ساتھ جہاد کیا۔ آپ نے لشکر منظم کیے، شہر آباد کیے، اور اسلام کا جھنڈا بلند کیا، جس سے کفر اور طاغوت کے ملک ختم ہوئے۔ اور اسلامی حدود آپ کے دور میں دُور دُور تک پھیل گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر جو شہروں اور ملکوں کی فتوحات عطا کیں اس سے مسلمانوں کی عزت میں اضافہ ہوا۔
جب اسلامی تلواروں نے کفر اور سرکشی کے میناروں کو زمین بوس کیا تو اسلام کے دشمنوں میں یہ سکت نہیں تھی کہ اس
[1] رواہ البخاری (۷۲۸۴- ۷۲۸۵) کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب اقتداء النبي صلي الله عليه وسلم۔ فتح الباری ج (۱۳/۲۵۰)۔