کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 159
چیز کے متعلق کیسے پوچھوں جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔ اورانہوں نے میرے لیے خلافت کی وصیت کردی ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ دلیل ان کے منصوص ہونے کے خود ساختہ دعویٰ پر ردّ کے لیے ایک مضبوط اور دو ٹوک دلیل ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود کہا تھا :
’’ اللہ کی قسم ! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق پوچھ لیا اورآپ نے انکار کردیا ؛ توپھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔‘‘
یہ دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو نافذ کرنے کے کتنے ہی حریص تھے؛ اور سنت پر کتنے کاربند تھے۔ اور اس میں ان رافضہ پر بھی رد ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہ نص چھپا دی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا حق ِ خلافت روک لیا۔ ‘‘[1]
دوم:…عقلی رد :
کئی عقلی دلائل اور براہین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ِرسول نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نص نہ ہونے کے دلائل میں سے ایک وہ دلیل ہے جسے امام جوینی رافضیوں پر رد کرتے ہوئے ذکرکرتے ہیں :
وہ فرماتے ہیں : ’’ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سقیفہ والے دن اپنا بڑا مقرر کرنے اور خلیفہ متعین کرنے کے لیے جمع ہوئے ؛ تو لوگوں کی آراء اور خواہشات مختلف ہوگئیں۔ اورلوگوں کے عزائم سامنے آنے لگے، لوگ ایک مشکل وقت میں تھے۔ اور ایسی پناہ گاہ کی ضرورت تھی جس کے سائے میں پناہ لی جائے۔ اور عقد امر (تشکیل حکومت )میں اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
اور اہم معاملات اس کے سپرد کیے جائیں۔ سو بیعت کرنے والے ہاتھ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر متفق ہو گئے۔ حق دار نے اپنے حق کو لے لیا اور لوگوں نے راحت پائی۔ اور بد گمانیاں ختم ہوگئیں۔ اگر اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی معاملات سونپے جاتے؛ اور اللہ تعالیٰ کی قسم ! وہ اس کام کے اہل، اور پسندیدہ تھے ؛ تو پھر بھی باتیں بنانے والے لوگ یہی بات کہتے : ’’ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہو؟ اور ہلاکت میں پڑ رہے ہو؟ اور اونچے نیچے؛ اور متفرق اور جمع میں متردد ہورہے ہو؟ اور صاحب ِ شرع کو چھوڑ رہے ہو۔‘‘[2]
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی نصوص پر سب سے زیادہ کاربند تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احترام سنت، اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر بطور دلیل یہاں پرمیں دو اہم موقف پیش کرتا ہوں۔
[1] صحیح مسلم ‘ کتاب الأضاحي ‘ باب: تحریم الذبح لغیر اللّٰه ‘ ولعن فاعلہ ‘ ح( ۴۵)۔
[2] رواہ البخاری کتاب المغازي ‘ باب: مرض النبی صلي الله عليه وسلم ووفاتہ ؛ ح(۴۴۴۷)۔