کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 158
کی اس نیام میں ہے۔ ‘‘ پھر آپ نے ایک تحریر نکالی، اس میں لکھا ہوا تھا : ’’ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے، جو کوئی غیر اللہ کے لیے ذبح کرے۔ ‘‘[1] اور وہ قوی دلائل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عدم ِ وصی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے ایک صحیح بخاری کی روایت ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : ’’حضر ت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے؛ یہ اس مرض کا واقعہ ہے میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ؛ لوگوں نے کہا: اے ابو الحسن ! آج صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ’’ الحمد للہ ! آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہے۔ پھر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : ’’ خدا کی قسم تین دن کے بعد تم غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاؤ گے ؛ اور اللہ کی قسم ! مجھے ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت یاب نہیں ہوسکیں گے۔ موت کے وقت مجھے بنو مطلب کے چہروں کی خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدخلافت کس کو ملے گی ؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں، تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہے تو بھی معلوم ہوجائے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممکن ہے ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو کچھ وصیتیں کردیں۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ اللہ کی قسم ! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق پوچھ لیا اورآپ نے انکار کردیا ؛ توپھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے۔ میں تو ہر گز اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی نہیں پوچھوں گا۔ ‘‘[2] ڈاکٹر علی بن ناصر الفقیہی کہتے ہیں : ’’ کیا یہ نص رافضہ کے جھوٹ پر رد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ ‘‘ [اس میں رافضہ کاجھوٹ کئی باتوں سے ظاہر ہے ] اول:… خلافت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ سے سوال کرنے سے رک جانا۔ دوم:… یہ واقعہ اس دن کا ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ سوم:… اگر ایسی کوئی نص اس سے پہلے ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہہ دیتے کہ میں ایسی
[1] اس حدیث میں ایک اعتراض کیا جواب دیا جارہا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وصیت نہیں کی تو لوگوں پر وصیت کیسے لازم کی گئی‘ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ :’’ کسی مسلمان کو لا ئق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو‘ جس کے لیے وہ وصیت کرنا چاہے؛ وہ دوراتیں گزارے ‘ ا ور اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی نہ ہو‘‘۔ مسلم کتاب الوصیۃ ؛ باب وصیۃ الرجل مکتوب عندہ ؛ ح: (۴۲۰۴)۔ جب کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت (اپنے مال کے بارے میں ) نہیں کی۔ حالانکہ آپ کی زمین خیبر اور فدک میں تھی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وصیت کی تھی وہ کتاب اللہ پر عمل ہے۔ اور خود وصیت اس لیے ترک کی کہ نبی کا مال وراثت نہیں ہوتا ‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی اپنی تمام جائیداد وقف کردی تھی۔جیساکہ اگلی حدیث میں آرہا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ : ’’ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کا جو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ‘ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ‘ اور نہ ہی کسی فرد کے لیے خاص وصیت کسی ایک صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ البتہ بعض احادیث میں یہ وصیت ضرور موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہود اور نصاریٰ کو جزیرہ ٔ عرب سے نکال دو۔ اور سفارت کے لیے آنے و الوں کی ایسی ہی خاطر کرو ‘ جیسے میں کیا کرتا تھا ‘‘ (تاکہ دوسری قوموں کو اسلام میں رغبت پیدا ہو)۔ مسلم (۴۲۳۲) مسلم کتاب الوصیۃ ‘ باب : ترک الوصیۃ لمن لیس لہ شيء یوصی فیہ ‘ ح(۴۲۲۹)۔ أبو داؤد ‘ ح: ۲۸۶۳؛ سنن نسائی ‘ح: ۳۶۲۳۔ [2] البخاری ‘ کتاب الوصایا؛ باب : وصیۃ الرجل مکتوب عندہ ؛ ح: (۲۷۴۱)۔ مسلم کتاب الوصیۃ ‘ باب : ترک الوصیۃ لمن لیس لہ شيء یوصی فیہ ‘ ح(۱۹)۔ أبو داؤد ‘ ح: ۲۸۶۳؛ سنن نسائی ‘ح: ۳۶۲۳۔