کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 154
شہرستانی نے ذکر کیا ہے کہ ابن سبا وہ پہلا آدمی ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے پر نص ِ کا قول ایجاد کیا اور ابن سبا کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے : ’’(اس کے بارے میں )گمان کیا جاتا ہے کہ یہ یہودی تھا، اور مسلمان ہوگیا وہ اپنی یہودیت میں کہا کرتا تھا کہ یشوع بن نون موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ؛ جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بعد میں کہا۔ اس نے سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا قول ایجاد کیا۔ اور اسی سے غالیوں کی مختلف اصناف پھوٹیں۔‘‘[1] مقریزی کاکہنا ہے کہ : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ابن سبا نے حضرت علی کے وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا قول ایجاد کیا۔سو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اور امت پر آپ کے خلیفہ ہیں ؛ یہ بات نص سے ثابت ہے۔ ‘‘[2] نیز روافض کے علماء اور محققین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ابن سبا -یہودی - وہ پہلا انسان ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہونے کا قول ایجاد کیا۔ ‘‘ (معروف شیعہ عالم ) نوبختی کہتا ہے : ’’ علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک جماعت سے حکایت نقل کی گئی ہے کہ عبد اللہ بن سبا یہودی تھا، پھر اس نے اسلام قبول کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کرلی۔ جب وہ یہودی تھا تو کہا کرتا تھا کہ یوشع بن نون موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے وصی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ایسی ہی بات کہنے لگا۔‘‘ یہ پہلا انسان ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا کہا ؛ اور ان کے اعداء سے براء ت کا اظہار کیا اور ان کے مخالفین کا پردہ چاک کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ مخالفین کہتے ہیں : ’’شیعہ کی اصل یہودیوں سے ماخوذ ہے۔ ‘‘[3] کشی (جو کہ ان کے ہاں رکن الاسلام کے لقب سے معروف ہے )نے اپنی کتاب ’’معرفۃ أخبار الرجال‘‘[4] میں بھی ایسے ہی ذکر کیاہے اور مامقانی نے ’’تنقیح المقال‘‘[5] میں یہی لکھا ہے۔ ابن مرتضیٰ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ عبد اللہ بن سباء نے سب سے پہلے امامت کے منصوص ہونے اور بارہ اماموں کا قول ایجاد کیے۔[6]
[1] عیون المعجزات : حسین عبد الوہاب (۷-۸)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے لوٹائے جانے کی حدیث بعض اہل ِ سنت محدثین نے بھی نقل کی ہے۔ اور یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کی دعا سے پیش آیا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج لوٹایا گیا ‘ یہاں تک کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھ لی۔‘‘ اور دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے لیکن یہ فقط روایت ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں : ’’یہ من گھڑت روایت ہے۔‘‘ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : ’’ اس کی کوئی اصل ہی نہیں۔‘‘ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے موضوع کہا ہے۔ منہاج السنۃ ۸/ ۱۶۵۔ بعض اہل علم نے کہا ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج کا لوٹنا صحیح ہے لیکن اس معاملے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ [2] تاریخ الطبری : (۴/ ۳۴۰)۔ [3] الفرق بین الفرق ص :( ۲۳۵)