کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 151
پھر آپ کے بعد جناب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو خلیفہ بنانے کے لیے وصیت کی تھی مگر آپ کو ’’ وصی ‘‘ کا لقب نہیں ملا؛ بلکہ خلیفۂ خلیفۂ رسول کا لقب ملا۔ اس کے بعد آپ کو بطور ِ اختصار امیر المومنین کہا جانے لگا۔ پھر یہ لقب جناب حضرت ِ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ملا۔ ‘‘[1] مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں رہا جس نے خلفاء اربعہ میں سے کسی ایک پر لقب ’’وصی ‘‘ کا اطلاق کیا ہو۔ سوائے ابن سبا کی باتوں کے اور وہ لوگ جو اس کے دھوکے میں آگئے؛جب اس نے اسلام میں وصیت کا قول ایجاد کیا؛ اور یہ گمان کرنے لگا کہ جناب ِ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ اور اس بدعت کے انتشار کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں (اس وقت شروع ہوئی ) جب عبداللہ بن سبا کی سر گرمیوں نے زور پکڑا۔ ‘‘ اس سے ہمارے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ لقب ’’ وصی ‘‘ اصل میں یہودیوں کا عقیدہ ہے؛ جو ابن سبا کے توسط سے رافضیوں میں منتقل ہوا ہے۔ دوم: وجوب وصی پر اتفاق : یہودی اور رافضی نبی کے بعد وصی مقرر کرنے کے وجوب پر متفق ہیں۔ یہودیوں نے وصی سے خالی امت کو ان بکریوں سے تشبیہ دی ہے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو۔ اور رافضی یہ کہنے لگے کہ ’’ اگر زمین ایک گھڑی بھی امام کے بغیر رہے تو دھنس جائے، دونوں باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وصی مقرر کرنا واجب ہے۔ اور لوگ اس سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ سوم : وصی کے تعین پر اتفاق: یہودی اور رافضی دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی وصی کو متعین کرتے ہیں اور نبی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے بعد وصی کو خود چن لے۔ یہود کی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ یشوع کو اپنے بعد اپنا وصی مقرر کریں۔ اور رافضی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا وصی چن لیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا تعین سات آسمانوں کے اوپر سے ہوا ہے۔ چہارم : وصی سے ہم کلامی : ان کا آپس میں اس بات پربھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ اوصیاء سے کلام کرتے ہیں، اور ان کی طرف وحی نازل کرتے ہیں۔ یہودیوں کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار یشوع کو مخاطب کیا، اور رافضی یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار اور کئی جگہوں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سر گوشیاں کی؛جیساکہ ان کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔
[1] [انہوں نے بھی آپ کو وصی نہیں کہا ؛اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا سکتے ہیں کہ میرے بعد خلیفہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہوں گے ‘ جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ اگر وصی کا کوئی مقام ومرتبہ اسلام میں ہوتا تو آپ ضرور بتا کر جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اور مؤمنین اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ وہ ابو بکر( رضی اللہ عنہ )پر اختلاف کریں ‘‘۔ مصنف ۱۱۹۹؛ بخاری ۵۶۶۶؛ مسلم ۲۳۸۷؛ مختصر الشریعۃ ۲۷۱؛ مترجم]