کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 150
کرتے رہے۔
اور اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد ائمہ کی منزلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہے۔ اور وہ ہر چیز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مماثلت رکھتے ہیں سوائے عورتوں کی تعداد کے۔ ‘‘
رہا جو مسئلہ کاظمی ( ایک معاصر شیعہ عالم ) نے ذکر کیا ہے کہ:
’’ امامت بالکل نبوت ہی کی طرح ہے، سوائے وحی کے۔ ‘‘ اسے تقیہ پر محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ سابقہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ :’’ یہ (شیعہ / رافضی ) لوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ: ’’ امام کی طرف ایسے ہی وحی کی جاتی ہے جیسے نبی کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ ‘‘
کاظمی کے قول کو اگر تقیہ پر محمول نہ بھی کیا جائے تو بھی ان نصوص کے سامنے ؛ جو ان کی بنیادی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں، اس کے قول کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ [ بلکہ مذہب کے لحاظ سے اسے شاذ کہا جائے گا ؛ اس لیے کہ یہ مذہب کے تمام لوگوں کی مخالفت کررہا ہے ]
(ان کے مذہب کے ) علماء اس عقیدہ کو صدیوں سے قبول کرتے چلے آئے ہیں اور اس کی کسی روایت پر انہوں نے کوئی جرح و تنقید نہیں کی ؛ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔
تیسری بحث :… یہودی اور رافضی عقیدۂ وصیت میں وجوہ مشابہت
یہودیوں اور رافضیوں کے ہاں وصیت کا عقیدہ بیان کرنے کے بعدیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان دونوں عقیدہ میں بہت بڑی مشابہت ہے۔ اور یہ مشابہت کئی لحاظ سے ہے :
اول : نام میں مشابہت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے امور نبھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ پر وصی لقب کا اطلاق کرنا عام مسلمانوں کے ہاں معروف نہیں ہے۔ یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ جناب حضرت ِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمسلمانوں کے خلیفہ بنے، اوران کے امور کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لی۔ اور باتفاق ِ صحابہ آپ کو خلیفہء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ آپ کو وصی کہا گیا ہو، یہاں تک جن لوگوں نے کہا کہ آپ کی خلافت نص سے ثابت ہے۔[1]
[1] مناقب آل ابی طالب(۳/ ۲۶۰)۔
[2] فضل بن شاذان : الإیضاح (ص: ۳۸ کا حاشیہ )۔